آنکھیں ترس گئی ہیں ہوئی اشک بار بھی |
صورت کے دیکھنے کو بڑی بے قرار بھی |
آنکھوں کو تاب دید نہیں دل کا کیا کروں |
ہے مضطرب مگر اسے ہی انتظار بھی |
حیرت زدہ نگاہ اٹھی پھر پلٹ گئی |
پس مختصر سا مجھ کو ملا اختیار بھی |
آساں نہیں فقط کہ اسی کشمکش میں ہو |
بیمُ رجا پہ زندگی کا انحصار بھی |
تیرے سوا کہ حال کوئی جانتا نہیں |
تیرے سوا نہیں ہے کوئی غم گسار بھی |
حالات نے مجھے بھی ہے رنجیدہ کر دیا |
وہ کیا کرے جسے ہو غمِ روز گار بھی |
مجھ کو دِلِ شکُوہِ شکیبا نہیں ملا |
میں صوفیوں کی طرح نہیں شب گزار بھی |
مجھ کو ہے عشق حضرَتِ خیرَالا نام بھی |
تخلیق کائنات کا ہے افتخار بھی |
مطلق بدل گئی مری ہَییت بدل گئی |
پی کر شراب عشق ہے چڑھتا خمار بھی |
نیت ثواب جان کے تو بے شمار پی |
پی کر شراب عشق رہو ہوشیار بھی |
مجھ کو تلاش صورتِ پروردگار ہے |
مخفی اگر ہوا تو ہوا آشکار بھی |
خرم بابا شکرگڑھی |
معلومات