شور سمندر کا لہروں کے تسلسل میں ہے
لطف پرندوں کا کلیوں کے تغزل میں ہے
یوں کہو تو حسن تصویر میں ہے ہی نہیں
حسن مصور کے بے لاگ تخیل میں ہے
شعر سخن میں نہیں زلف پریشاں نہیں
لطف و عنایت جو ہے تیغ مقاتل میں ہے
کیف ہے دیدہ بصیرت بھی انا حق کہے
عشق خلل بھی تو منصور سے بسمل میں ہے
خوب عیاں زلف اسود کی طرح داغ دل
خاک بکف سوختہ دل بھی تساہل میں ہے
خلد بریں آب کوثر میں کوئی حق نہیں
شیخ حرم کا یہ فتویٰ بھی تغافل میں ہے
حشر میں دیون حقیقت عیاں ہو جائے گی
رند کو فرصت نہیں ہوش تجاہل میں ہے

0
33