راستہ بھٹکا ہوا ہوں دور ہے منظر کہیں
ساقیا مجھ کو بنا دے خضر کا ہمسر کہیں
منزلیں مشکل بہت ہیں تنگ ہیں رستے بڑے
جستجو زندہ رہے بس موت سے بہتر کہیں
آرزو مجھ کو رہی ہے دیکھ کر یوں حال دل
چوم لوں چوکھٹ تری میں تھام کر ساغر کہیں
چھوڑ کر منزل خطا میں راہ کا راہی بنا
خود بھٹک جاتا نہیں میں جان کر اکثر کہیں
مرشدِ کامل نظر سے دیکھ لے حالت مری
سوز میں جلتا ہوا دل یوں لگے اختر کہیں
ہے کفن جب سے مرے سر خوف بھی جاتا رہا
مرحبا کہتے پھرا جو چوم کر خنجر کہیں
بے سبب قطرے ٹپک کر جود کے دریا بہے
بخش دے یا رب مجھے بھی ظرف میں ساگر کہیں
عشق میں منزل نہیں ہے عشق میں حاصل نہیں
اے خدایا کر عطا اب مرشدو رہبر کہیں
مل گئے حضرت قبا میں سرخ رو جھکتی کمر
پھول پھل سے ہو لدی اک شاخ ہو لاغر کہیں
آپ فرمانے لگے مجھ بے پروں کے باز کو
بولتے کیونکر نہیں ہو عقل کے کافر کہیں
عقل کا منکر بھی نہ بن عشق رب سے کر طلب
راز ہستی ساز میں ہے سوز میں مضمر کہیں
وہ ملے تو سب ملے ہے وہ نہیں تو سب نہیں
دیکھتا ہوں وہ ملے تو ہے ملے گوہر کہیں
تو کہاں ہے وہ کہاں پر فرق ہے اتنا کہ بس
عقل ہے حیراں کہیں پر عشق ہے ششدر کہیں
عقل سے ممکن نہیں ہے ذات کو حاصل کرے
عشق کی حد میں نہیں وہ چھپ سکا ظاہر کہیں
دیکھ کر میں حال دل کا خوف سے ڈرتا رہا
خون میں لت پت کہیں پر تیز ہیں نشتر کہیں
ڈوب کر خود کی خودی میں دیکھ لو دیونؔ کبھی
جوش میں رحمت خدا کی جوش میں کوثر کہیں

0
18