بات نکلی ہے یاں کفر و ایمان کی
شیخ صاحب سے بندوں پے رحمان کی
نامناسب ہے فتوے لگانا یونہی
کون سنتا ہے اس دل کے نادان کی
لا بھی کہتے مسلماں بھی رہتے ہو تم
ہے یہ منطق عجب اس کے ایمان کی
لا کوسمجھے نہیں پھر بھی کہتے ہو لا
لا ہی بنیاد ہے کیا مسلمان کی
لا سے پہلے ہے وہ بعد لا کےہوں میں
ہے حقیقت یہ حضرت جی انسان کی
تم جسے ڈھونڈتے ہو وہ دیکھا نہیں
بات سچ ہے سنو بات قرآن کی
جب سے میں بود ہوں وہ عدم تب سے ہے
مجھ سے پہلے نہ تھی بات پہچان کی
کل سے جز اور جز کل میں سمجھے ہو کیا
ذات واجب کو سمجھے ہو امکان کی
سائے کو منطبق تم کرو ذات پر
بات مشکل نہ ہو جائے یزدان کی
دیکھ لو تم جسے وہ خدا کیوں رہے
ہے توقع تمہیں اب بھی میزان کی
دیکھنے کا تو قائل ہے قابل نہیں
دید ممکن نہیں اس کے الوان کی
کچھ تصور نیا بھی پرانا بھی ہے
بات سچ ہے نہیں بات نقصان کی
وہ عدم بھی نہیں ہاں عدم بھی ہے وہ
جسم معدوم ہے ذات زہران کی
زندگی ہے ملی میں مروں گا نہیں
چھوڑ دے بات دیون یہ عرفان کی
متدارک مثمن سالم( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

0
13