خوشی مرے رقیب کو کبھی تو ناگوار ہو
اسی طرح ہو راہ دل اگر جو استوار ہو
اُسے تو جستجو نہیں مجھے ہے آرزو یہی
مجھے جو انتظار ہے اُسے بھی انتظار ہو
رقیب جاں دعا کرے نصیب دشمناں سہی
غمِ فراق میں جگر لہو سے اشکبار ہو
خدا بشر کے روپ میں مجھے کہیں ملا نہیں
نہیں ملا گلہ کروں اگر تو اختیار ہو
جسے نہ لذتِ وصل غَمِ فراق بھی نہ ہو
بُوَالحوَس وہی تو ہے اسی سے ہوشیار ہو
تیری یہ خامشی مرے عدو کی ہم زبان ہے
دل و جگر سے پار کر جو تیر یادگار ہو
اے شاعرِ شکستہ ہُو یہ رسم عاشقی نہیں
اُسے نہ شرمسار کر نہ آپ گنہگار ہو

0
7