| پھیلا ہے اسی شام کا منظر مرے آگے |
| جب نرم اندھیرے ہوۓ پتھر مرے آگے |
| حالات وہی تو وہی امید بھی تجھ سے |
| دشمن مرے پیچھے ہے سمندر مرے آگے |
| اک عمر سے پھر جاگتی آنکھوں کے مرے خواب |
| پیچھے مرے رہتے ہیں یا اکثر مرے آگے |
| کوشش کا مکلف ہوں ، مجھے اس سے غرض کیا |
| بنتا کہ بگڑتا ہے مقدر مرے آگے |
| اتنے ہیں علم خواب زمینوں پہ لگانے |
| ہاں ہیچ ہے اس میں تو سکندر مرے آگے |
| ابلاغ ذرائع یہ روا بط و تعلق |
| رکھا ہے پھر اس دور نے ممبر مرے آگے |
| ارشد میں یہ سمجھا تھا گیا دار کا موسم |
| آیا ہے وہی وقت گزر کر مرے آگے |
معلومات