پھیلا ہے اسی شام کا منظر مرے آگے
جب نرم اندھیرے ہوۓ پتھر مرے آگے
حالات وہی تو وہی امید بھی تجھ سے
دشمن مرے پیچھے ہے سمندر مرے آگے
اک عمر سے پھر جاگتی آنکھوں کے مرے خواب
پیچھے مرے رہتے ہیں یا اکثر مرے آگے
کوشش کا مکلف ہوں ، مجھے اس سے غرض کیا
بنتا کہ بگڑتا ہے مقدر مرے آگے
اتنے ہیں علم خواب زمینوں پہ لگانے
ہاں ہیچ ہے اس میں تو سکندر مرے آگے
ابلاغ ذرائع یہ روا بط و تعلق
رکھا ہے پھر اس دور نے ممبر مرے آگے
ارشد میں یہ سمجھا تھا گیا دار کا موسم
آیا ہے وہی وقت گزر کر مرے آگے

57
2324
سبحان اللہ سبحان اللہ۔کیا کہنے سر

0
حضرت بڑی نوازش عزت افزائ - شکریہ

0
ابلاغ ذرائع یہ روابط و تعلق
رکھا ہے پھر اس دور نے ممبر مرے آگے

بہتر ترین شعر۔۔۔

آپکا ادنیٰ قدر دان اور ریختہ کا شاگرد

بہت خوب جناب

بہت اعلی بھائی جان
ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن سے آپ کو داد دی جاۓ۔
بہت خوب بھائی جان

حضرت کیوں شرمندہ کر رہے ہیں - اصل میں میں اپنے کلام کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اسکو کہیں لکھوں یہ بھی میں نے اس لیے شائع کی تھی کہ میں دیکھنا چاہتا تھا یہ فیچر کیسے کام کرتا ہے

سر ارشد میری ایک غزل پر تبصرہ فرما دیں۔ نوازش ہوگی

https://www.aruuz.com/poetry?id=2uChn0POuJx6oubXuL9o
سلام وعلیکم ۔
بھائی جان میری یہ غزل دیکھ کے بتائیں بہتری آئی ہے کہ نہیں۔نہیں۔شکریہ

0
خوبصورت کلام۔۔۔۔ کیا کہنے

0
https://www.aruuz.com/message?id=C0OVjygaJ9bFjAiZN2Sb#FEgPRSI5D29IWRQymzCamRELJ98d0y

میری غزل پہ تبصرہ کیجیے ارشد صاحب

0
https://www.aruuz.com/message?id=C0OVjygaJ9bFjAiZN2Sb#rG9DmulRTvzfQ2zfPwcDgk7ETel7RY
ارشد صاحب اس کا جواب دے دیجیے ۔ بہت شکریہ ❤️

0
جی دے دیا - شکریہ

محترم ارشد صاحب ! میں نے آپ کا تبصرہ پڑھا ، اپنی غزل کے نیچے اور اپنی غلطیاں بھی جان لیں آپ سے گزارش ہے کہ مجھے شکست ِِماورا کے بارے میں بتا دیجیے ، اور میری شاعری کی بہتری اور اصلاح کے لیے کن کن باتوں کا دھیان رکھنا ہوگا اور کن کتابوں کو پڑھنا ہوگا اس میں بھی رہنمائی کردیں ، خدا کا شکر ہے وقت پہ مجھے آپ جیسے استاد مل گئے ،
یہ میرا نمبر ہے عنایت ہوگی کہ مجھ سے WhatsApp پہ جر جائیں تاکہ باآسانی میں آپ سے رہنمائی کر سکو ۔ آپ کا بہت ممنون ہوں ❣️❣️03349372417

مجھے اس پہ میسج کردیجیۓ گا شکریہ ❤️

0
بہت شکریہ جناب ! ایک بات عرض کرتا چلوں کہ مجھے لکھتے ہوئے ابھی صرف 6 ماہ ہوئے ہیں اور اپنے دم سے عروض سیکھے ہیں باقی آپ کو میں استاد کی حیثیت دیتا ہوں کیوں کہ آپ نے کافی مدد دی ہے مجھے بتا دیجیے کہ میل کس طرح کرتے ہیں مجھے کرنا نہیں آتا بہت شکریہ

0
بسمل یاد رکھیۓ- ؑ عروض سکیھ کر وزن میں شاعری کرنا تو پہلا درجہ ہے - اس سے آپ کا کلام شعر کہلاۓ گا مگر شعر بننے کا عمل اسکے بعد شروع ہوتا ہے-۔

https://www.aruuz.com/?user=officialabdulber@gmail.com
اس پہ رہنمائی فرمادیجے

0
شکستِ ناورا کی سمجھ نہیں آئی ، مثال سے بتا دیں

0

0
بہت خوب محترم ۔۔۔ ماشاءاللہ
کیا آپ نے مرزا غالبؔ صاحب کی غزل کا وزن استعمال کیا ہے؟؟؟

0
آیا ہے وہی وقت گزر کر مرے آگے
بہت خوب،،، بہت خوب

0
اسلام علیکم جناب!
خاکسار کی درخواست ہے کہ براہ کرم اصلاح فرما دی جائے۔۔
https://www.aruuz.com/poetry?id=3AZwvD4e22yj3SGU3J4g
خاکسار آپ کا بے حد ممنون ہو گا۔ جنابِ عالی مقام!

0
اسلام علیکم جناب!
خاکسار کی درخواست ہے کہ براہ کرم اصلاح فرما دی جائے۔۔
https://www.aruuz.com/poetry?id=3AZwvD4e22yj3SGU3J4g
خاکسار آپ کا بے حد ممنون ہو گا۔ جنابِ عالی مقام!

0
سر میں نے اپنی گذارشات اس غزل کے تبصرے میں لکھ دی ہیں
خود کو خاکسار لکھ کر ہم کو شرمسار نہ کریں
"اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں " :)

جناب یہ آپ کا بڑا پن ہے۔

0
ما شاء اللہ
بہت خوب ?

0
شاید کتابت میں سہو کی وجہ سے ” مِنبر” کو ممبر لکھ دیا

0
واہ کمااااال است

0
ماشآاللہ بہت خوب غزل ہے اور وہ بھی غالب کی زمین میں

پلیز ذرا وضاحت فرمائیں کہ اس کا کیا مطلب ہے
اتنے ہیں علم خواب زینوں پہ لگانے

پیشگی شکریہ

0
یہ شعر یوں تھا
اتنے ہیں علم خواب زمینوں پہ لگانے
ہاں ہیچ ہے اس میں تو سکندر مرے آگے

- عَلم کا مطلب ہے جھنڈا - تو میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جس طرح سکندرِ اعظم نے دنیا کی زمینوں پر اپنے جحنڈے گاڑے تھے ویسے ہی میرے پاس اتنے زیادہ خواب ہیں کہ میں ان خوابوں کی زمینوں پر اپنے جھنڈے گاڑنا شروع کروں تو سکندر بھی اس کے آگے ہیچ پڑ جائیاگا۔

0
ماشآآللہ

0
ماشاءاللہ بہت شاندار غزل ہے
مگر ابلاغ ذرائع والا مصرع بے بحر ہے

روابط وتعلق میں "ط" اور "واو" پر غور کریں
مزید یہ کہ ذرائع ابلاغ کا الٹا ابلاغ ذرائع کا استعمال بھی محل نظر ہے۔
اور علم خواب والے شعر میں دونوں مصرعوں میں لفظی تعلق معلوم نہیں ہو رہا ہے مفہوم صحیح ہے البتہ الفاظ کا ہیر پھیر ضروری ہے۔

اور نرم اندھیرے اور پتھر کا تعلق؟
دار کا موسم؟

0

مگر ابلاغ ذرائع والا مصرع بے بحر ہے
--- اس غزل کی بحر ہے "مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن" یہ مصرع اس پر پورا اترتا ہے لہذا بے بحر نہیں ہے - آپ شائد لفظ ذرائع کی تقطیع غلط کر رہے ہوں گے -

روابط وتعلق میں "ط" اور "واو" پر غور کریں
--- غور کر لیا - کچھ غلط نہیں نظر آہا

مزید یہ کہ ذرائع ابلاغ کا الٹا ابلاغ ذرائع کا استعمال بھی محل نظر ہے۔
-- جی مگر یہ استعمال جائز ہے لہٰذا مصرعے کی بناوٹ کے پیشِ نظر درست ہے -

اور علم خواب والے شعر میں دونوں مصرعوں میں لفظی تعلق معلوم نہیں ہو رہا ہے مفہوم صحیح ہے البتہ الفاظ کا ہیر پھیر ضروری ہے۔
-- یہ شعر تلمیح ہے اور تلمیح سمجھنے کے لیئے واقعہ سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے - جس طرح سکندر نے بے شمار زمینیوں پہ جھنڈے گاڑھے تھے اسی طرح شاعر کو خواب زمینوں پر اتنے جھنڈے گاڑھنے ہیں کہ سکندر بھی ہیچ ہے -

اور نرم اندھیرے اور پتھر کا تعلق؟
نرمی نرم ہوتی ہے اور پتھر سخت - یہ دو متضاد چیزیں ہیں - نرم اندحیرا لطاٖفت لاتا ہے مگر شاعر کہہ رہا ہے وہ سختی لایا تھا- نرم اور سخت یعنی پتھر کی لفظی مطابقت ذہن میں رکھیں-

دار کا موسم؟
اگر آپ جدید شاعری پڑھیں گے جیسے فیض اور فراز تو آپ کو یہ اصطلاح سمجھ میں آ جائیگی ٓ یہ معاصرانہ اصطلاح ہے

شکریہ -

0

ابلاغ۔۔۔۔۔۔مفعول
ذرائع۔۔۔۔۔۔مفاعی
یہ۔۔۔۔۔۔۔ل
روابط۔۔۔۔۔۔۔مفاعی (ط کا ساکن ہونا لازمی ہے بحر کی سلامتی کے لئے آپکے مصرع میں متحرک ہے۔)
ل۔۔۔۔۔و
تعلق۔۔۔۔فعولن

ابلاغ ذرائع یہ روابط یہ تعلق۔
یوں ہو جائیے تو بہتر ہے۔




0
جناب آپ کی تقطیع میں آپ ایک بات بھول رہے ہیں

پہلا رکن ہے مفولُ - یہاں لام متحرک ہے اس کو آپ نے ابلاغ کے برابر مان لیا ہے حالانکہ ابلاغ میں غ ساکن ہے
کیوں؟؟ اس لیئے کہ قاعدے کے مطابق جب آپ کسی ساکن پہ رکتے نہیں ہیں تو وہ متحرک ہوجاتا ہے لہٰذا یہ صحیح ہوا-
بالکل اسی طرح روابط بھی ہے - روابط کی بھی تقتیع مفاعی صحیح ہوگی کیوںکہ آپ اس پر بات ختم نہیں کر رے ہیں -
یہ اصول اگر نظر انداز کر دیں گے تو پھر تو بڑے بڑے شعر بے بحر ہو جائیں گے - آپ اس پہ خود تحقیقات کر لیجیئے- ساکن کے مقابل ساکن کا کلیہ صحیح ہے جیسے صبر فَع ل ہے - یہاں آپ کا ب ساکن ہونا چاہیئے -

باقی آپ کی یہ بات میں مان سکتا ہوں کہ و کے بجاۓ یہ کر دیا جاے تو مصرعہ اور رواں ہو جائے گا - مگر و بھی غلط نہیں ہے -

ابھی آپ کی نعت دیکھی - اس میں آپ نے خود بھی یہی کلیہ استعمال کیا ہے
آپ کا مصرعہ ہے
نبی کی ذات پہ ایمان جو بھی رکھتے ہیں
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مفاعلن --- نبی کی ذا
فعلاتن ----- ت پہ ایما
مُفاعلن ----- ن جو بھی رکھ

یہاں آپ نے مفا کے میم جو کہ متحرک ہے ، کے مقابل ایمان کا نون رکھا ہے کو کہ ساکن ہے -
کیوں؟؟
بالکل اسی کلیئے سے جو میں نے اوپر لکھا ہے

0
چناب ارشد صاحب!

ابلاغ میں یا ہماری نعت میں کلیہ الگ ہے یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔۔

اردو میں عطف ومعطوف کو پڑھنے کا یہ طریقہ نہیں ہے جو مصرع میں ہے۔ شجروحجر ،برگ وثمر میں شجر کی" ی "اور برگ میں" گ" ساکن نہیں ہیں متحرک پڑھے جاتے ہیں۔

اب آپ روابط وتعلق کی ترکیب کو ملاحظہ فرمائیں۔

آپ کی تقطیع کے حساب سے ط ساکن ہو رہا ہے جو کہ عطف ومعطوف کے پڑھنے کے قاعدہ کے خلاف ہےجس پرآپ اوپر والے قاعدہ کلیہ کا انطباق فرما رہےہیں۔










0
شائد میں اب آپ کی بات سمجھا ہوں -
آپ واو عطف کی بات کر رہے ہیں تو آپ کی بات بالکل صحیح ہے اس کو اپنے پچھلے والے لفظ پہ پیش لگا کر تقطیع کرتے ہیں - تو یہ واو جب روابط کے آخر کے ط پہ لگے گا تو اسے متحرک کر دے گا اور تقطیع کچھ ایسے ہوگی

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
اِبْ لا غ ذ را ئع ی ر وا بط طُ تَ عَلْ لَق

بط ایک بار عی کے برابر ہوگا اور ایک بار واؤ عطف کے - اسے دو دفعہ پڑھنا پڑے گا-
یہی تقطیع آپ اس ویب سائٹ پہ بھی دیکھ سکتے ہیں - لہٰذا میرا نکتہ نظر یہی ہے کہ یہ صحیح ہے

0
اسلام علیکم استاد جی بڑے ہی ادب و احترام سے گذارش ہے کہ میرے کلام پر کوئ تبصرہ کردیجئے کلام کو شئر کرنے کی لنک کیسے بنتی ہے میں جانتا نہیں ہوں مہربانی کرکے آپ میری آئڈی میں جاکر سب سے پہلا جو کلام ہے اسی پر کچھ تبصرہ کردیں یا کم از کم تخیل کیسا ہے اتنا بتا دیں

0
ماشاءاللہ واہ واہ

0
سر میں سیکھ رہا ہوں۔ میری بھی بحر اور گرائمر کے لحاظ سے اغلاط کی نشاندہی فرما دیں۔ میں نے بحر اور وزن کے بارے میں اپنے استادِ محترم شیراز ساگر سے تھوڑا بہت سیکھا ہے۔
مگر اب کالج ختم ہونے کی وجہ سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
آپ اصلاح کر دیا کریں۔

نوازش ہوگی۔

0
سر آپ نے شعر پر تبصرہ کیا اس کا شکر گزار ہوں
اب دیکھئے:

کہہ دو تم " ہاں ، ہے محبت مجھے تم سے"
دیکھ لی ہم نے تری آنکھوں میں چاہت

0
ارشد میں یہ سمجھا تھا گیا دار کا موسم
آیا ہے وہی وقت گزر کر مرے آگے

واہ واہ

0
کوشش کا مکلف ہوں ۔۔۔۔
بہتر ہے کوشش جاری رکھیں۔


0
غالب کی زمین میں غزل کہنا ایک مشکل فن ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فنی پختگی کا تقاضا کرتی ہے بلکہ معنوی گہرائی بھی چاہتی ہے۔ اس غزل میں چند اہم مسائل نظر آتے ہیں:

1️⃣ قافیہ اور ردیف کا چیلنج:

"پتھر، سمندر، مقدر، سکندر" جیسے قافیے نسبتاً عام اور سطحی محسوس ہوتے ہیں، جو غالب کے طرزِ سخن کی باریکی کو نہیں چھو پاتے۔


2️⃣ بحر میں ناہمواری:

بعض اشعار میں بحر متاثر ہوئی ہے، جیسے:
"حالات وہی تو وہی امید بھی تجھ سے".

یہاں الفاظ کو بہتر ترتیب دی جا سکتی تھی تاکہ روانی قائم رہے۔



3️⃣ مضمون کی کمی اور استعاروں کی سطحیت:

"دشمن مرے پیچھے ہے سمندر مرے آگے"

ایک عام سا خیال ہے، جس میں کوئی خاص تہہ داری یا نیا پن نہیں۔


"ابلاغ ذرائع یہ روابط و تعلق"

جدید میڈیا کا ذکر تو ہے، مگر یہ ایک نثری جملے جیسا لگتا ہے، جو شعری تاثیر سے محروم ہے۔



🔹 مجموعی طور پر، یہ غزل غالب کی زمین کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتی، کیونکہ اس میں نہ تو ان کے طرزِ بیان کی گہرائی ہے، نہ کوئی فکری انفرادیت نظر آتی ہے۔ اگر آپ واقعی غالب کی زمین میں شعر کہنا چاہتے ہیں تو قافیے کے چناؤ، بحر کی درستگی، اور خیال کی گہرائی پر مزید توجہ دینا ضروری ہے، ورنہ یہ محض ایک مشق سے زیادہ کچھ نہیں لگے گی۔

0
آزاد نظم با عنوان(چاند رات) بطور اصلاح پیش خدمت ہے۔

چاند رات
خوشی کی گھڑی ہے
عجب اک سماں ہے
بچہ کوئی بوڑھا جواں ہے
وہاں ہے
خوشی ان کے چہرے سے بالکل عیاں ہے
فلک پر لگی ہیں سبھی کی نگاہیں
مرا سنگ بھی چاہیں
اور میں پریشاں
انہیں کیا بتاوں؟
فلک میں نہیں ہے
زمیں پر کہیں ہے وہ رشکِ قمر تو
مری عید جس سے
مری شام جس سے
مری ہر خوشی جو مری زندگی ہے
وہی جب نہیں ہے تو کیا زندگی ہے
کہ یہ زندگی تو
شروع ہے اسی سے اسی پر ختم بھی
غمِ زندگی یہ فراقِ صنم بھی
بہت سہہ چکا میں ستم در ستم بھی
ستم سہہ نہ پاوں
یہ غم سہہ نہ پاوں
میں اب رہ نہ پاوں
مگر کہہ نہ پاوں کہ رک رک سی جاتی ہے سینے میں دھڑکن
ہے بہنے کو بیتاب یہ چشمِ نم بھی
مگر اس سے پہلے یہ بند ٹوٹ جائے
ان آنکھوں کا پانی بھلا کیسے روکوں
میں کیسے سمیٹوں یہ انمول دولت
مری چشمِ نم کے کنارے کے موتی
چھپاتے چھپاتے
بچاتے بچاتے
نہ چاہتے بھی میرے جو دو چار قطرے کہیں گر پڑے تو
کوئی دیکھ لے
اگر پوچھ لے تو میں کیا نام دوں گا بیتابی کو اپنی
یہ سب بے خبر ہیں مرے حالِ دل سے
چھپاوں تو کس سے
بتاوں تو کس کو
میں کس کس سے بولوں کہ ایسی گھڑی میں
مبارک نہ دے کوئی گلے نا لگائے
کہ جب ہاتھ دل سے جدا ہو نہ پائے
مبشر کہو کیسے رسمیں نبھائے
یہ ماتم کناں عید کیسے منائے؟
یہ ماتم کناں عید کیسے منائے؟

0
-------
لہو میں ڈوبتے بچے، جلے کتبے، جفا کا راج
فغاں میں ڈھل گئی مسجد، ندا میں کھو گیا اعراج
زمیں پہ کربلا ہر صبح بنتی ہے نئی صورت
خدا کی بستیوں پر ہے عدو کا خنجرِ معراج
------------------------------------------------------------------
https://www.aruuz.com/poetry?id=SogfsPRNcVdiI2r9xm0g


محترم و مکرم ارشد رشید!

آپ کی توجہ اور تنقیدی بصیرت کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ ایسے مکالمے ہی شعر و سخن کو نکھارتے ہیں۔ البتہ چند گزارشات، صرف وضاحت کے لیے، پیشِ خدمت ہیں:

1. "کتبیں" کے حوالے سے:
یہ آٹو ٹائپ کیبورڈ کی وجہ سے لکھا گیا ہے - اصل لفظ 'جلے کتبے' ہے

2. "جفا کا راج" بمقابلہ "ظلم و قہر"
درست ہے کہ "ظلم" زیادہ معروف لفظ ہے، مگر "جفا" کا انتخاب ایک فنکارانہ اختیار (poetic license) ہے۔
یہاں "جفا" کا انتخاب ایک نرم تر مگر دل چیرنے والا اثر پیدا کرتا ہے۔
"ظلم و قہر" شاید نعرے جیسا ہو جاتا، جب کہ "جفا" میں نرم خنجر کی چبھن ہے۔
3. "ڈوبتے بچے" کے بجائے "ڈوبے ہوئے بچے"؟
بجا ارشاد، مگر یہاں "ڈوبتے بچے" ایک جاری منظرنامہ، continuity اور horror in motion کا تصور پیدا کرتا ہے۔
جبکہ "ڈوبے ہوئے بچے" ماضی کا فریزڈ لمحہ بن جاتا۔
میرے مصرعے میں، کرب ابھی جاری ہے، وقت کے ساتھ رواں ہے — اسی لیے "ڈوبتے" کا استعمال شعوری ہے۔

4. "اعراج" کا اعتراض:
"اعراج" عربی الاصل سہی، مگر یہ اردو کے ادبی دائرے سے خارج نہیں۔
یہاں لفظ کا استعمال "ندا" یعنی صدا/بلندی/پیغام میں کھو جانے والے روحانی یا معنوی عروج کے لیے بطور تشبیہ آیا ہے۔
اس کا استعمال ایک کلاسیکی شاعر نے کیا ہے
***اعراجِ وقتِ زیست نے بخشا ہے یہ سبق
ہر عرش، خاک ہوتا ہے انجامِ کار میں


5. "کربلا بنتی ہے" بمقابلہ "بپا ہوتی ہے"
لغوی طور پر "کربلا بپا ہوتی ہے" درست اصطلاح ہے۔
مگر "بنتی ہے" کا استعمال یہاں تصویری انداز میں ہے — جیسے ہر روز ایک نیا منظرنامہ، ایک نئی کربلا تخلیق پا رہی ہو۔
یہ "بنتی" دراصل metaphor ہے کہ:
ظلم کا منظر نامہ ہر دن نئی شکل میں پیدا ہو رہا ہے۔

6. "خنجرِ معراج" – تعریفی یا طنزیہ؟
یہاں "خنجرِ معراج" ایک طنزیہ استعارہ ہے۔

مطلب یہ نہیں کہ خنجر قابلِ فخر ہے، بلکہ یہ کہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے — یعنی خنجر بھی معراج پر ہے!
جیسا کہ کہا جاتا ہے: "ظلم کی انتہا ہو گئی!" — بالکل اسی فضا میں یہ ترکیب برتی گئی ہے۔
شاعری میں ایسے طنزیہ استعمال بہت عام ہیں، مثلاً:
"بےوفائی کی بھی کیا خوب ادا نکلی!"

میں تہِ دل سے آپ کی تنقید کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ تخلیق اگر قابلِ سوال نہ ہو تو بامعنی نہیں بن سکتی۔
تاہم، کچھ نکات تخلیقی زبان اور شعری رمز کی روشنی میں دیکھے جائیں تو شاید بہتر طور پر سمجھ میں آ سکیں۔

میں ہر لفظ کی اصلاح پر کھلا ہوں، بشرطیکہ وہ فنی حسن، معنوی جہت اور جذباتی عمق کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔

والسلام
----سید ہادی علی

ماشاء اللہ بہت خوب

ہمارے باقی اشعار پر بھی تبصرہ فرما دیں

0
یارو........ اور پیارو........... حرف ندا ہے میری قطعہ میں....... اس لئے غنہ (ں) کا استعمال ختم کر دینگے یہ بھی اردو زبان کے ساتھ آپ کی زیادتی تھی............

صرف تقطیع کرتے وقت ہی حرف غنہ.. ں.... کو منسوخ کرنا چاہئے لیکن بعد میں....... غزل لکھتے وقت الفاظ کو انکا پورا پورا حق دینا چاہئے.......... اس لئے.........یہ ہی سہی ہے.........

یومِ آزادی بھی ہندوستانیوں کی عید ہے
جمعہ کے دن امت مسلم کی یاروں عید ہے
ہاں حقیقی عید ہیں اسلام میں بس دو ہی دن
یومِ آزادی مناؤ جمعہ بھی پیاروں عید ہے



غنہ والا قانون صرف تقطیع کرتے وقت ہے
الفاظ کو ان کے حق سے محروم کرنے کے لئے نہیں ہے......... لہذا تقطیع کرنے کے بعد ں لگانا درست ہے
بلکہ پہلے کے تمام شعراء کا یہی قانون ہے پرانی شاعری میں.....

0

غم دیدو مجھے میں ہوں اِک غم کا جہاں یاروں
غم بھی ہے عبادت اک اللہ کی یہاں یاروں

کچھ یاد رہا مجھ کو کچھ بھول چکا ہوں میں
ہر یاد رہے باقی وہ ذہن کہاں یاروں

غم سے جو محبت ہو ہو شکرِ خداوندی
محبوب کوئی غم کا ملتا ہے کہاں یاروں

ہم پیار کریں اس کو نفرت ہو جسے ہم سے
ضد کام ہمارا ہے نفرت ہو جہاں یاروں

ہے کالی گھٹا بجلی اور بوندیں بھی بارش کی
طوفان سمندر کا کیا خوب سماں یاروں

طوفان سمندر کا کشتی مری مشکل میں
خاموش کیو بیٹھے ہو ہو کوئی فغاں یاروں

ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس ہی کرتے ہیں امداد کہاں یاروں

قابو میں رکھو غصہ اور اپنی زبانو کو
لے جاتی جہنم میں بے قابو زباں یاروں

کہتے ہو غزل جو تم سننے کو بھی کوئی ہو
سن نے کا کہاں ہے اب یہ دور زماں یاروں

پڑھتا ہے زبیر آخر جس وقت غزل اپنی
کوئی وہاں سنتا ہے تو کوئی یہاں یاروں

0
قمر اختر صاحب کو ملاحظہ فرمائیں

https://youtu.be/6vY4Fqr-ur4?si=hitIEdCL4u9YVTXp

0
یاروں ؟؟؟؟؟؟؟؟

0
زبیر صاحب میں تو عرض کر چکا ہوں آپ ان میں سے ہیں ہی نہیں جو سیکھنا چاہتے ہیں -
بے کار کی بحث میں پڑھنے سے بہتر ہے اپنا علم بڑھائیے - مثالیں اساتذہ سے تلاش کیجیئے
اور مجھے معاف کر دیجیئے -

0
ویسے میں تو پہلے ہی آپ کے اعتراض کو سمجھتے ہؤے یارو اور پیارو کر چکا تھا لیکن جب میں نے استاد جی کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہونے کہ دیا کہ آپ نئے لڑکے ہو.... اس لئے یاروں کو یاروں ہی لکھ دیا.......... اور ویسے بھی غزل یا شعر کہتے وقت بھی تو غنہ ں کا تلفظ نکالینگیں...
بہر حال......... میں مزید تحقیق کرونگا...... ابھی اتنا سب کمنٹ اس لئے کر رہا ہوں کہ مرے استاد نے ں لگانے کے لئے کہا ہے....... باقی آپ کے کہنے سے میں نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا تھا.........

0
آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یاروں اور یارو دو الگ الگ الفاظ ہیں -
آپ اگر استاد سے صرف یہ پوچھیں گے تو انکو کیا پتا کہ ایشو کیا ہے - وہ تو یہی کہیں گے کہ نون غنہ تقطیع میں نہین آتا - آپ کا مسئلہ تقطیع نہہیں - میں نے پہلے بھی آپ کو سمجھایا تھا ایک آخری کوشش اور کرتا ہوں
آپ اپنے یاروں کو مخاطب کر رہے ہیں تو آپ اسے یارو اور پیارو کہیں گے
اگر آپ ان کا ذکر کر رہے ہوتے تب آپ ان کی جمع یاروں اور پیاروں لکھیں گے

برائے کرام یہاں کمنٹس بھیجنا بند کیجیئے یہ صفحہ غیر ضروری طور پر سب سے پہلے آجا تا ہے جو میں ہر گز نہیں چاہتا -
ویسے بھی اب آپ مجھے میری غلطی کی بہت سزا دے چکے ہیں - اب اس سلسلے کو خدارا ختم کر دیجیئے -

جو آپ کا دل چاہے لکھتے رہیں -

0
نہیں جناب میں اتنا نادان نہیں ہوں جو واضح طور پر اپنے اعتراض اور دوسرے کے دئے ہوے جواب کو ہو بہ ہو دوسرے کےسامنے پیش نہ کر سکوں........

استاد جی کا اعتراض کچھ یوں ہے واٹس اپ سے کاپی..........کٸی جگہ نون غنّا چھوڑ دیا ہے ۔
کیوں ؟

میرا جواب وٹس اپ سے کاپی...............عروض پر میں اپنی شاعری کو شائع کرتا ہوں وہاں مجھ سے کسی نے بتایا تھا جہاں حرف ندا آ جائے تو ں چھوڑ دیتے ہیں.......

استاد کا جواب...............................یہ نہیں بتایا کہ تقطیع کرتے وقت چھوڑتے ہیں صرف ۔
غزل میں نہیں.

میرا جواب................
نہیں یہ نہیں بتایا

استاد کا جواب...................بتانا چاہئے تھا بار حال لکھا کرو......
کوئی ہوگا نیا لڑکا



0
"""آپ اپنے یاروں کو مخاطب کر رہے ہیں تو آپ اسے یارو اور پیارو کہیں گے"""
کہتے وقت تو ویسے بھی ن غنہ ں کا تلفظ ناک کے راستے سے نکلتا ہے.......... لازمی ہے فطری طور پر


اب رہا لکھنے کا مسئلہ........ تو جو چیز فطری زبان میں شامل ہو اسے کیوں نہ لکھا جاۓ........ جبکہ تقطیع کرتے وقت ں گرا سکتے ہیں لیکن تقطیع کرنے کے لئے گرایا جاتا ہے جب کلام مکمل موزوں ہو جائے تو پھر ں لگا دیا جائے............... استاد جی کے قول سے میں یہی سمجھا ہوں........... باقی غلطی ماننے میں میں ن صرف سر فہرست ہوں بلکہ فورا اسے صحیح کرکے اپنے سر فہرست ہونے کا ثبوت بھی دیتا ہوں.......

0