Circle Image

رانا جاوید اقبال قہر

@rjiqaher

رمز حکمت کی آج کہتے ہیں
آفتوں کو علاج کہتے ہیں
پھر رعایت میں آپ کی بدلہ
جس کو اپنا مزاج کہتے ہیں

0
7
جا رہی ہو، تمھیں محبت ہے؟
یہ اگر سچ ہے، پھر اجازت ہے
کچھ حقیقت، مجاز سے لے کر
لوٹ جانا بھی اک عبادت ہے
جہاں منسوب حق سے ہو ہستی
واں تو مرنا بھی استقامت ہے

0
54
تھے کہیں بھی مگر اِدھر آئے
اپنے مالک کی راہ پر آئے
مغفرت کا نزول ہوتا ہے
عاجزی لے کے چشمِ تر آئے
پھر بھی دکھتا ہے ضعفِ چشمی میں
حق جو قسمت سے ہی نظر آئے

57
تمھارے دل سے محبت نے خوب کام لیا
ہمی سے ہم کو بچاتے رہے محبت میں

0
27
تمھارے قُرب میں ہر چند چار سال ہوئے
انہی میں اپنے خیالوں سے ہم خیال ہوئے
نہ رکھتے کیوں تمھیں آگاہ اپنی باتوں سے
جواب پا گئے جتنے کبھی سوال ہوئے

0
52
درد مندی نے کیسے سینچے پھول؟
سرکشی نے اُگائے خار، ببول
یعنی سختی میں خیر ہوتی نہیں
اور نرمی سے ہر بھلائی قبول

0
1165
رکھے گی حرص سے آلودہ تصور اپنا
یہ جو تصویر دکھا کر نہیں بخشی ہم کو

0
2046
پھرا کرتے تھے ہم سر پر خدائی سائباں لے کر
بڑا نیچے گرا مارا زمیں نے وہ جہاں لے کر
نہ خود کو جانتے تھے جب، اُنہیں پہچانتے تھے ہم
کہ اپنی روح کھو بیٹھے دیارِ جسم و جاں لے کر

0
3329
دے ترے رزق کو فراوانی
تجھ کو بخشے حیاتِ لافانی
تیری دُنیا کی خیر میں رکھے
اُخروی خیر ذاتِ ربّ بانی

0
1690
چاند لگتے ہو تم وہاں جا کے
چُھو کے آتے ہو آسماں جا کے
یاد کرتے ہو تم جہاں جا کے
یاد رہتے ہو پھر یہاں، جا کے
جہاں درکار تھی نظر دل کی
ہم نے دیکھا تمھیں وہاں جا کے

0
76
یہ جو آئینے سے باہر ملا ہے
یہی باطن ہے اور ظاہر ملا ہے
سبق ہم کو ہماری بے خودی کا
اُسے ابہام میں پا کر ملا ہے
بِلا سوچے جو شاید چل پڑا تھا
بھلائی سے مری قاصر ملا ہے

0
173
آج فرقت میں ہے قرار بہت
کار فرما ہے یادِ یار بہت
گلشنِ جاں ہو گر غریقِ خزاں
ایسے دل کو تری بہار بہت
ہجر ہو یا خزاں ہو یاد تری
وصل جیسی ہے پُر بہار بہت

0
197
غافل رہے نہ یاد سے پل بھر الگ رہے
گو در پہ تیرے، لوگوں سے یکسر الگ رہے
شاید کبھی جو آپ کو بھولے ہوں، سوچ کر
بدلے میں اپنے آپ سے اکثر الگ رہے

0
98
ایک اک منظر میں صورت آپکی دِکھلائے گی
زندگی ہم کو تمھاری یاد سے بہلائے گی
لفظ پلٹیں گے ترا لہجہ تری خوشبو لئے
جب غزل میری کبھی تیری زباں تک آئے گی
آگئے جس موڑ پر ہم تم محبت کے سبب
دیکھنا رَستہ یہی اُلفت ہمیں دِکھلائے گی

0
172
نظر کو وصل کے پل سے ہٹائیں گے نہ کبھی
کریں گے یاد تمہیں یوں، بھلائیں گے نہ کبھی
کریں گے بات جو الفت کو زیب دیتی ہو
جو راہ سچ سے الگ ہو دکھائیں گے نہ کبھی
مقام آپ کے خط کا ہمیں گوارا ہے
کہ اور آنکھ سے کاغذ لگائیں گے نہ کبھی

0
131
اوج سے صاحبِ مقام ہوئے
گِر کے مرنے کو لبِ بام ہوئے
جان دے کر کسی کے نام ہوئے
تب یہ قصے لبوں پہ عام ہوئے
چند لمحے جو ہم کلام ہوئے
سارے شکوے گلے تمام ہوئے

0
169
سوچو پایا حیات سے کیا کچھ
اور کھویا ممات سے کیا کچھ
موت کے ہاتھ تھی رِہن ہستی
موت پوچھے حیات سے کیا کچھ
حرفِ آخر ہے فیصلہ جس کا
ہے تہی اس کے ہات سے کیا کچھ

0
190