نگاہِ یار نے جب سے بُھلا دیا ہے سبھی |
دل و نگاہ کا دیکھا سُنا سُنا ہے سبھی |
ہمیں ہے چاہ کہ کہہ دو تو بے لحاظ لگو |
وہی جو تم نے مروّت میں کہہ دیا ہے سبھی |
جبھی تو اس کو محبت کا بھی دریغ نہیں |
کہ دائو پر جو کسی نے لگا دیا ہے سبھی |
جا نہیں پائے کبھی جا کر دلِ ناشاد سے |
سامنے پایا تمھیں ہم نے تمھاری یاد سے |
کر دیا مانا اِسے دستور ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ الفت نے رہا |
قید میں ملتی رہی تیری خوشی آزاد سے |
تارے گن گن کر شبِ ہجراں گزاری بھی اگر |
چاند کے بِچھڑے کو کیا اس کثرت و تعداد سے |
کاش کہتے نہ بے وفا جاناں |
اور دیتے کوئی سزا جاناں |
آگے آتی نہ بے محل باتیں |
بخش دیتے کہا سنا جاناں |
ایسا ممکن کہاں محبت میں |
یاد رکھتے کوئی خطا جاناں |