Circle Image

رانا جاوید اقبال قہر

@rjiqaher

دے ترے رزق کو فراوانی
تجھ کو بخشے حیاتِ لافانی
تیری دُنیا کی خیر میں رکھے
اُخروی خیر ذاتِ ربّ بانی

0
24
مر کے آئیں گے آپ سے ملنے
بس ذرا جان سے گزر جائیں

0
21
ترک ہونے کو ہوتیں، باتیں کیا؟
دن بھی تھکتے نہیں تھے راتیں کیا!
خامشی بھی کلام کرتی تھی!
دل سے ہوتی تھیں دل کی باتیں کیا!

0
23
تم سے ملنے میں گر ہوئے آزاد
یاد کی قید سے رہا ہو ں گے
جب تری یاد بھی نہیں ہو گی
ہم کبھی ساتھ اس طرح ہوں گے

0
27
خواب تھا دیکھنا ضروری تھا
جاننا بھی اُسے شعوری تھا
ربّ کو تھا امتحاں الگ مقصود
ساتھ رکھنا الگ، ضروری تھا

0
33
چاند لگتے ہو تم وہاں جا کے
چُھو کے آتے ہو آسماں جا کے
یاد کرتے ہو تم جہاں جا کے
یاد رہتے ہو پھر یہاں، جا کے
جہاں درکار تھی نظر دل کی
ہم نے دیکھا تمھیں وہاں جا کے

0
49
وہ ہم خیال بھی میرا تھا، زندگی بھی مری
سو اس سے ملنے کی اُمید آخری تھی مری

0
48
کچھ خوشی ہے جو تری یاد سے یاد
کر رہی ہے دلِ ناشاد سے شاد

0
53
جی میں آنا یوں ترا، کم تو نہیں ہے ہمدم
ہے بہت ہم کو یہی، دل میں کہیں ہے ہمدم
اب تو تُو آئے تو شاید یہ چلے وقت کے ساتھ
دل وہ شائق ہے کہ رغبت میں وہیں ہے ہمدم

0
91
غزل از رانا جاوید اقبال قہر
منسلک تم سے تمہاری یاد کر دی
ہم نے مر کے زندگی آزاد کر دی
اب کوئی صورت محبت کی نہیں ہے
دل ہے کیا بستی کہ پھر آباد کر دی
پہلے دُوری نے نبھائی تھی محبت

1
129
چاہتوں کا ثمر تمھارے ساتھ
زندگی ہے مگر تمھارے ساتھ
ایسے گزرے کہ بے خبر کردے
وقت گزرے اگر تمھارے ساتھ
خوش ہیں منزل کی سمت جاتا ہے
زندگی کا سفر تمھارے ساتھ

0
83
فاصلے درمیاں نہیں ہوتے یعنی سوچو کہ ہم وہیں ہوتے
خواب لے کر تمھاری نیندوں میں تم سے ملتے بھلے کہیں ہوتے

0
81
خواب ایسے دکھاؤ نا ہم کو
جن کی تعبیر تم کو آتی ہے!
رنگ تکمیل کے بھرو ہم میں
ساری تصویر تم کو آتی ہے؟
جس میں قرباں ہو راز پر شہرت
کیا یہ تشہیر تم کو آتی ہے؟

0
94
یہ جو آئینے سے باہر ملا ہے
یہی باطن ہے اور ظاہر ملا ہے
سبق ہم کو ہماری بے خودی کا
اُسے ابہام میں پا کر ملا ہے
بِلا سوچے جو شاید چل پڑا تھا
بھلائی سے مری قاصر ملا ہے

0
159
مرے دن رات تیرے خواب کی تعبیر میں ہیں
میں اپنی آنکھ تیری رات میں کیسے لگالوں

0
55
کیا کہوں جی رہا ہوں تیرے بعد
یوں کہوں مر گیا ہوں تیرے بعد
مر کے تجھ سے ملا ہوں تیرے بعد
خواب میں کھو گیا ہوں تیرے بعد
تجھ سے مر کر ملے دلِ ناشاد
کیوں الگ مر رہا ہوں تیرے بعد

0
147
آج فرقت میں ہے قرار بہت
کار فرما ہے یادِ یار بہت
گلشنِ جاں ہو گر غریقِ خزاں
ایسے دل کو تری بہار بہت
ہجر ہو یا خزاں ہو یاد تری
وصل جیسی ہے پُر بہار بہت

0
186
سراہا تھا کسی نے حسن کو ہر چند لوگوں میں
اُسے پر چپ میں درپردہ ستائش یاد آتی ہے

0
81
پاسِ فرقت میں اگر خوف زدہ رہتے ہیں
ہیں نڈر کتنے کہ ہم تم سے جدا رہتے ہیں
ساتھ ہو جائے نہ کیوں یاد اِسی خَلوت کے
کتنے تنہا وہ مرے دل میں سدا رہتے ہیں

0
80
یوں خزائوں میں بہاروں سے ملا کرتے ہیں
یہ جو پتے ترے پیروں میں گرا کرتے ہیں
نہ کبھی ہجر کے آنے پہ ہوئی یاد خفا
نہ اسے وصل کے جانے پہ خفا کرتے ہیں
پوچھنے جاتے ہیں، اب تم سے اجازت چاہیں
پوچھتے پوچھتے پھر روز ملا کرتے ہیں

0
96
غافل رہے نہ یاد سے پل بھر الگ رہے
گو در پہ تیرے، لوگوں سے یکسر الگ رہے
شاید کبھی جو آپ کو بھولے ہوں، سوچ کر
بدلے میں اپنے آپ سے اکثر الگ رہے

0
77
کب بدلتا ہے مری جان کہ ڈھلتا دن ہے
رات جب آگ میں جلتی ہے سُلگتا دن ہے
ایسے اُلفت سے تجھے لائیں گے رَہ پر اپنی
رات کو جیسے تسلسل سے بدلتا دن ہے
بس ترا وصل لئے کاش کہ بہتا آئے
دیدہِ شب سے اگر روز چَھلکتا دن ہے

0
128
نگاہِ یار نے جب سے بُھلا دیا ہے سبھی
دل و نگاہ کا دیکھا سُنا سُنا ہے سبھی
ہمیں ہے چاہ کہ کہہ دو تو بے لحاظ لگو
وہی جو تم نے مروّت میں کہہ دیا ہے سبھی
جبھی تو اس کو محبت کا بھی دریغ نہیں
کہ دائو پر جو کسی نے لگا دیا ہے سبھی

0
111
یہ جو رغبت ہے اک سہارا ہے
ورنہ دُوری ہو کب گوارا ہے
ہے للک جی میں آپ کی خاطر
زیرِ لب آپ نے پکارا ہے
راز، دُوری میں بھی ہیں پوشیدہ
ایسے ملنے میں بھی اشارہ ہے

0
112
جا نہیں پائے کبھی جا کر دلِ ناشاد سے
سامنے پایا تمھیں ہم نے تمھاری یاد سے
کر دیا مانا اِسے دستور ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ الفت نے رہا
قید میں ملتی رہی تیری خوشی آزاد سے
تارے گن گن کر شبِ ہجراں گزاری بھی اگر
چاند کے بِچھڑے کو کیا اس کثرت و تعداد سے

0
121
دن وہ فرقت کی جزا ہوں گے کبھی
ساتھ جب ان کے سدا ہوں گے کبھی
گو حقیقت ہے فنا ہوں گے کبھی
ہم بھلا تم سے جدا ہوں گے کبھی
جاں سے لے جائے اگر عہدِ وفا
شکر، یہ وعدے وفا ہوں گے کبھی

0
186
ایک اک منظر میں صورت آپکی دِکھلائے گی
زندگی ہم کو تمھاری یاد سے بہلائے گی
لفظ پلٹیں گے ترا لہجہ تری خوشبو لئے
جب غزل میری کبھی تیری زباں تک آئے گی
آگئے جس موڑ پر ہم تم محبت کے سبب
دیکھنا رَستہ یہی اُلفت ہمیں دِکھلائے گی

0
159
نظر کو وصل کے پل سے ہٹائیں گے نہ کبھی
کریں گے یاد تمہیں یوں، بھلائیں گے نہ کبھی
کریں گے بات جو الفت کو زیب دیتی ہو
جو راہ سچ سے الگ ہو دکھائیں گے نہ کبھی
مقام آپ کے خط کا ہمیں گوارا ہے
کہ اور آنکھ سے کاغذ لگائیں گے نہ کبھی

0
115
اپنی راہوں میں آپ کو پا کر
مجھ کو منزل پہ رشک آتا ہے
ایسے آتے ہیں آپ سے ملنے
جیسے آنکھوں میں اشک آتا ہے

0
73
تمام عمر کی حسرت سے تم کو دیکھیں گے
پلک جھپکنے کی فرصت سے تم کو دیکھیں گے
جو ایک بار نظر سے ہماری گزرو گے
ہزار بار کی رغبت سے تم کو دیکھیں گے

0
86
کیسے تجھ سے جدا رہا ہوں میں
جب کہ ہر پل ترا رہا ہوں میں
ویسے تم کو خبر ہوئی ہوگی
جیسے تم کو بلا رہا ہوں میں
تیری بابت کہوں تو لگتا ہے
آپ بیتی سنا رہا ہوں میں

0
154
قدم قدم پہ یوں ہونے کو ساتھ کہتے ہیں
سفر میں خیر سے ہم ساتھ ساتھ ہوتے ہیں
زمینِ قلب سے اُٹھتی ہے آپ کی خوشبو
تمھارے لمس جو یادوں کے ساتھ بوتے ہیں
دعا دی ایسی محبت نے ہم چراغوں کو
ہوا کی زد میں بھی جھونکے بچائے پھرتے ہیں

0
131
کاش کہتے نہ بے وفا جاناں
اور دیتے کوئی سزا جاناں
آگے آتی نہ بے محل باتیں
بخش دیتے کہا سنا جاناں
ایسا ممکن کہاں محبت میں
یاد رکھتے کوئی خطا جاناں

0
82
آپ کے پیروں سے مس ہوتا جو پانی آئے گا
موج بن کر دل کی کشتی کو بہا لے جائے گا
آپ کے پیروں سے پانی میں بکھرتی تتلیاں
دیکھ کر دل شوق کے مارے فنا ہو جائے گا
جیت جاتے ہیں گزر کر جان سے اہلِ وفا
کیسے عاشق ہار کے دل، بے وفا کہلائے گا

0
106
نہ کچھ کہنا پڑے اور مان جائے
یہ دل تم پر نہ کیوں قربان جائے
بسی ہو روح بن کر میرے اندر
نکلتی ہو تو جیسے جان جائے
سہی جائے نہ ہم سے یہ جدائی
نہ جی سے وصل کا امکان جائے

0
111
ایسے شاید کہاں کسی سے ملے
تم سے ملنے میں زندگی سے ملے
بے قدر ہو گئے حیات کے غم
اس قدر آپ خوش دلی سے ملے
کیا یہ کم ہے کہ جب ملے تم سے
تم سے مل کر نہ پھر کسی سے ملے

0
151
اوج سے صاحبِ مقام ہوئے
گِر کے مرنے کو لبِ بام ہوئے
جان دے کر کسی کے نام ہوئے
تب یہ قصے لبوں پہ عام ہوئے
چند لمحے جو ہم کلام ہوئے
سارے شکوے گلے تمام ہوئے

0
122
سوچو پایا حیات سے کیا کچھ
اور کھویا ممات سے کیا کچھ
موت کے ہاتھ تھی رِہن ہستی
موت پوچھے حیات سے کیا کچھ
حرفِ آخر ہے فیصلہ جس کا
ہے تہی اس کے ہات سے کیا کچھ

0
144