گردِ غفلت اتار لیتے ہیں
خاک اپنی سنوار لیتے ہیں
تشنگی ہو حیات کا مسکن
دل کا دریا اُتار لیتے ہیں
غم سے سچی خوشی نکلتی ہے
دُکھ کو اتنا سنوار لیتے ہیں
نقدِِغم سونپتے رہے خود کو
اب خوشی کے ادھار لیتے ہیں
لوگ تو سایہ دار کہتے ہوئے
چِھین ہم سے بہار لیتے ہیں
کیوں تری زیست پر نچھاور ہوں
مر کے کچھ جاں نثار لیتے ہیں؟
قہر فتراک میں رہا جس کے
اس سے واپس شکار لیتے ہیں

0
31