تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
شیخ الطاف
@sheikhayaab
14 نومبر 2024
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
بس دِن گزارتا ہوں میں اِس اجنبی کے ساتھ،
رشتہ نہیں ہے کوئی مرا زندگی کے ساتھ۔
میں روشنی کے سنگ نہیں، چل سکا کبھی،
چلتا ہے جس یقین سے وہ تیرگی کے ساتھ۔
احوال ایک دوجے سے ہم کیسے پوچھتے،
میں بھی کسی کے ساتھ تھا،وہ بھی کسی کے ساتھ۔
غزل
1
5
27 اکتوبر 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
تم نے جو قَہْقَہَہ اُچھالا ہے
میرے اندر کا ڈر نِکالا ہے
نیند غائب ہے گاؤں والوں کی
رات سے آسمان کالا ہے
وحشتیں، بے کسی، یہ ویرانی
دشت نے کیا نہیں سنبھالا ہے
آج مجھ سے خدا مخاطب ہے
1
13
27 اکتوبر 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
تُو اُٹھا پائمال پتھر ایک
آسماں میں اُچھال پتھر ایک
دے رہا ہے جواب سر میرا
کر رہا ہے سوال پتھر ایک
میری دیوار میں نہیں آتا
ہائے! وہ بے مِثال پتھر ایک
میرا پرسانِ حال پتھر ایک
0
17
27 اکتوبر 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
مریضِ ہجر سنیں، پاس پاس ہو جائیں
اُداس شام ہے،سارے اُداس ہو جائیں
یہ مسئلہ ہے، اُداسی اُداس ہوتی ہے
فقیر لوگ اگر خوش لِباس ہو جائیں
ابھی گلے ملو ہم سے، کسے خبر ہے کہ کل
ہم اپنے آپ سے ہی نا شَناس ہو جائیں
میں اس مقام پہ پہنچا ہوں عشق میں الطاف
1
11
27 اکتوبر 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
جو کسی طور نہ تھا دل کو گوارا یارا
مجھ کو اُس درد نے کس درجہ نِکھارا یارا
آخِرش چارہ گروں نے تمہیں تجویز کِیا
جب بگڑتا ہی گیا حال ہمارا یارا
میں اُترتا ہوں خیالوں کے سمندر میں اگر
طنز کرتا ہے حقیقت کا کنارا یارا
مجھ کو اُس درد نے کس درجہ نکھارا یارا
0
17
20 مارچ 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
ہم اُنہیں صاحبِ گفتار نہیں کہہ سکتے،
جو ترے حسن پہ اشعار نہیں کہہ سکتے۔
آپ دشوار کو آسان بھلے کہتے رہیں،
آپ آسان کو دشوار نہیں کہہ سکتے۔
نا تو سر پھوڑا نہ ہی دشتِ الم میں بھٹکے،
اِن کو بلکل بھی عزادار نہیں کہہ سکتے۔
اشعار نہیں کہہ سکتے
1
38
7 فروری 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
اِس طرح دیکھ رہا ہے کوئی حیرانی سے،
جیسے پہچان ہی لے گا مجھے آسانی سے۔
مجھ سے ملنے کوئی آۓ تو یہ کہنا اس سے،
لوٹ جاۓ نہ ملے اپنی پشیمانی سے۔
رونقیں راس نہیں آئیں مجھے کیا کرتا،
مشورہ کر لیا پھر بعد میں ویرانی سے۔
اس طرح دیکھ رہا ہے کوئ حیرانی سے
1
31
20 جنوری 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
جتنے چہرے بھی جہاں میں مجھے بیزار ملے
با خدا سارے محبت میں گرفتار ملے
کیا غضب ڈھا گیا اِس بار کا سیلاب یہاں
جو تھے اِس پار کے باشندے وہ اُس پار ملے
اُس سے کہنا مرے الفاظ مجھے لوٹا دے
گر کہیں راہ میں وہ ماہرِ گفتار ملے
با خدا سارے محبت میں گرفتار ملے
0
125
19 جنوری 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
سیکھیے ضبط،سبھی زخم چھپاتے رہیے
آہ نکلے تو اُسے شعر بناتے رہیے
کسی صورت نہ یہ مٹّی رہے بیکار کبھی
بھول مرجھا چلیں تو خار لگاتے رہیے
عشق کا قحط نہ پڑ جائے کہیں دنیا میں
یہ گزارش ہے کہ فرہاد بناتے رہیے
شور مچاتے رہیے
0
57
8 جنوری 2023
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
اُس کی سانسوں نے غضب شور مچاۓ رکھا،
خود بھلے سو گیا پر فون لگاۓ رکھا۔
جب کہ ہر یاد مٹا دی تھی،نہ جانے کیوں پھر،
ایک تصویر کو بٹوے میں چِھپاۓ رکھا ۔
ویسے انساں سے مخاطب بھی نہیں ہوتا میں ،
حضرتِ دل نے جسے سر پہ بِٹھاۓ رکھا۔
اُس کی سانسوں نے غضب شور مچاۓ رکھا
2
38
11 اکتوبر 2022
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
اب کسی سے نہیں ملوں گا میں
رات ہو دن یہیں رہوں گا میں
اِس لیے بولنے نہیں دیتے
جانتے ہیں کہ سچ کہوں گا میں
پھول بننا اگر نصیب ہوا
ترے آنگن میں ہی کھلوں گا میں
جانتے ہیں کہ سچ کہوں گا میں
2
88
9 اکتوبر 2022
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
دیر تک پہلے وفا میں ہم رہے
بعد میں خاصی انا میں ہم رہے
دشمنوں سے پھر گلا ہی کیا رہا
دوستوں کی جب جفا میں ہم رہے
زلف کھولے تو ڈرا ہی دے تجھے
اس طرح کی اک بلا میں ہم رہے
دوستوں کی جب جفا میں ہم رہے
0
35
4 اکتوبر 2022
موزوں
شیخ الطاف
@sheikhayaab
جدا ہو کے ،بھی ہم سے پیار کرتا ہے
کہیں بھی دیکھ لے وہ وار کرتا ہے
الگ یہ بات وہ نبھاتا اک نہیں
مگر وہ وعدے اک ہزار کرتا ہے
یہ سچ ہے خوب چاہتا ہے مجھ کو پر
وہ ظلم بھی تو بے شمار کرتا ہے
یہ کون ہے جو انتظار کرتا ہے
0
49
4 اکتوبر 2022
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
خبر یہ ملی تھی جفا مسئلہ ہے
مگر دیکھتا ہوں انا مسئلہ ہے
میاں عشق تو ہے بلا کا ہے لیکن
وہ جس سے ہے اس کی رضا مسئلہ ہے
مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا لیکن
نمازیں ہوئی ہیں قضا مسئلہ ہے
خبر یہ ملی تھی جفا مسئلہ ہے
0
34
4 اکتوبر 2022
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
نۓ زمانوں کا کیا کروں گا
میں قید خانوں کا کیا کروں گا
جو دفن ہم نے کبھی کۓ تھے
میں اُن خزانوں کا کیا کروں گے
جو تیرے ناخون سے لگے ہیں
میں اُن نشانوں کا کیا کروں گا
میں قید خانوں کا کیا کروں گا
0
45
3 ستمبر 2022
غزل
شیخ الطاف
@sheikhayaab
روشنی میں جگنو لایا جا رہا ہے
آئنے کو کیا دکھایا جا رہا ہے
یہ دھواں سا کیا اٹھایا جا رہا ہے
آگ کو کیوں آزمایا جا رہا ہے
کون ہے جو دے کے دستک چھپ گیا ہے
کیوں مجھے یوں ہی ستایا جا رہا ہے
غزل
2
54
معلومات