تم نے جو قَہْقَہَہ اُچھالا ہے
میرے اندر کا ڈر نِکالا ہے
نیند غائب ہے گاؤں والوں کی
رات سے آسمان کالا ہے
وحشتیں، بے کسی، یہ ویرانی
دشت نے کیا نہیں سنبھالا ہے
آسماں اور اونچا کر دیجئے
یہ دھواں دور جانے والا ہے
رات اُس کے لبوں سے ٹکرائیں
اَنْدھی آنکھوں میں اب اُجالا ہے
روح یعنی ہوا کا جھونکا تھی
جسم مٹّی کا ایک جالا ہے
میں تو ٹھہرا ہوا ہوں برسوں سے
میرے پاؤں میں کس کا چھالا ہے
آج مجھ سے خدا مخاطب ہے
اور میری زباں پہ تالا ہے

13