تم نے جو قَہْقَہَہ اُچھالا ہے |
میرے اندر کا ڈر نِکالا ہے |
نیند غائب ہے گاؤں والوں کی |
رات سے آسمان کالا ہے |
وحشتیں، بے کسی، یہ ویرانی |
دشت نے کیا نہیں سنبھالا ہے |
آسماں اور اونچا کر دیجئے |
یہ دھواں دور جانے والا ہے |
رات اُس کے لبوں سے ٹکرائیں |
اَنْدھی آنکھوں میں اب اُجالا ہے |
روح یعنی ہوا کا جھونکا تھی |
جسم مٹّی کا ایک جالا ہے |
میں تو ٹھہرا ہوا ہوں برسوں سے |
میرے پاؤں میں کس کا چھالا ہے |
آج مجھ سے خدا مخاطب ہے |
اور میری زباں پہ تالا ہے |
معلومات