اب کسی سے نہیں ملوں گا میں
رات ہو دن یہیں رہوں گا میں
اِس لیے بولنے نہیں دیتے
جانتے ہیں کہ سچ کہوں گا میں
پھول بننا اگر نصیب ہوا
ترے آنگن میں ہی کھلوں گا میں
عشق جب تک معافی نا مانگے
ضد ہے تب تک نہیں اٹھوں گا میں
گر نہیں دل لگا کتابوں میں
لوٹ آنا یہی ملوں گا میں
بات تیری سنوں گا اچھے سے
پر بھروسہ نہیں کروں گا میں
مجھ پہ مجنوں کا سایا پڑ گیا ہے
اب کسی کی نہیں سنوں گا میں
بس دعا اور سلام ہی کیجے
حال پوچھا تو رو پڑوں گا میں
تجھ کو کس کی تلاش ہے عیّابؔ
دربدر کب تلک پھروں گا میں

88