بس دِن گزارتا ہوں میں اِس اجنبی کے ساتھ،
رشتہ نہیں ہے کوئی مرا زندگی کے ساتھ۔
میں روشنی کے سنگ نہیں، چل سکا کبھی،
چلتا ہے جس یقین سے وہ تیرگی کے ساتھ۔
احوال ایک دوجے سے ہم کیسے پوچھتے،
میں بھی کسی کے ساتھ تھا،وہ بھی کسی کے ساتھ۔
میں نے بھلے سوال یہ آسان کر دیا،
دے گا مگر جواب وہ پیچیدگی کے ساتھ
پہلے تو تھوڑا شور کریں گے بِچارے لوگ،
پھر طے کریں گے راستہ سب خامشی کے ساتھ۔
اُتنا اُداس ہو کے اُسے لوٹنا پڑا،
آیا تھا میرے پاس وہ جِتنی خوشی کے ساتھ۔
گردش کے ہیر پھیر نے تقسیم کر دیا،
میں تیرگی کے ساتھ ہوں، وہ روشنی کے ساتھ۔
رفتار میری مجھ کو بہت یاد آتی ہے،
پڑتے ہیں جب قدم کہیں آہستگی کے ساتھ۔
کب تک کسی کی یاد کو پیچھے دھکیل کر،
کہتا رہوں گا شعر، میں سنجیدگی کے ساتھ۔
الطاف اُس کی آنکھ سے میں کیا گلا کروں،
تکتا ہے آئنہ بھی مجھے بے دلی کے ساتھ۔

5