سیکھیے ضبط،سبھی زخم چھپاتے رہیے
آہ نکلے تو اُسے شعر بناتے رہیے
کسی صورت نہ یہ مٹّی رہے بیکار کبھی
بھول مرجھا چلیں تو خار لگاتے رہیے
عشق کا قحط نہ پڑ جائے کہیں دنیا میں
یہ گزارش ہے کہ فرہاد بناتے رہیے
حوصلہ ملتا ہے شاعر کو خدارا سمجھیں
شعر بھی سنیے مگر شور مچاتے رہیے
جب تلک آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتا عیّابؔ
آپ تب تک اُسے آواز لگاتے رہیے

0
57