اِس طرح دیکھ رہا ہے کوئی حیرانی سے،
جیسے پہچان ہی لے گا مجھے آسانی سے۔
مجھ سے ملنے کوئی آۓ تو یہ کہنا اس سے،
لوٹ جاۓ نہ ملے اپنی پشیمانی سے۔
رونقیں راس نہیں آئیں مجھے کیا کرتا،
مشورہ کر لیا پھر بعد میں ویرانی سے۔
کون آیا تھا ترے دل کے جزیرے کی طرف
کس نے کھیلا ترے جزبوں کی فراوانی سے۔
یاد آتا ہے وہ جلتا ہوا گھر جب مجھ کو،
ڈرنے لگتے ہوں چراغوں کی نگہبانی سے۔
تُو سرِِ عام بھلے ہنستا رہے کتنا ہی،
لوگ پڑھتے ہیں اُداسی تری پیشانی سے۔
جِتنی مشکل سے ملا تھا تمہیں کوئی عیّابؔ،
تم نے کھویا ہے اُسے اُتنی ہی آسانی سے

31