اِس طرح دیکھ رہا ہے کوئی حیرانی سے، |
جیسے پہچان ہی لے گا مجھے آسانی سے۔ |
مجھ سے ملنے کوئی آۓ تو یہ کہنا اس سے، |
لوٹ جاۓ نہ ملے اپنی پشیمانی سے۔ |
رونقیں راس نہیں آئیں مجھے کیا کرتا، |
مشورہ کر لیا پھر بعد میں ویرانی سے۔ |
کون آیا تھا ترے دل کے جزیرے کی طرف |
کس نے کھیلا ترے جزبوں کی فراوانی سے۔ |
یاد آتا ہے وہ جلتا ہوا گھر جب مجھ کو، |
ڈرنے لگتے ہوں چراغوں کی نگہبانی سے۔ |
تُو سرِِ عام بھلے ہنستا رہے کتنا ہی، |
لوگ پڑھتے ہیں اُداسی تری پیشانی سے۔ |
جِتنی مشکل سے ملا تھا تمہیں کوئی عیّابؔ، |
تم نے کھویا ہے اُسے اُتنی ہی آسانی سے |
معلومات