روشنی میں جگنو لایا جا رہا ہے |
آئنے کو کیا دکھایا جا رہا ہے |
یہ دھواں سا کیا اٹھایا جا رہا ہے |
آگ کو کیوں آزمایا جا رہا ہے |
کون ہے جو دے کے دستک چھپ گیا ہے |
کیوں مجھے یوں ہی ستایا جا رہا ہے |
بستی کے یہ لوگ کتنے نا سمجھ ہیں |
ہیر کو رانجھا بتایا جا رہا ہے |
ہاتھ لگتا ہی نہیں تھا وہ کبھی سو |
ہاتھ اس سے اب چھڑایا جا رہا ہے |
کیا سنا اچھا ہوں میں میں اور اچھا |
جھوٹ تم سب کو سنایا جا رہا ہے |
تا کہ یہ خود مار پائیں اس لیے بھی |
مجھ کو دشمن سے بچایا جا رہا ہے |
جب میں روٹھا ہی نہیں ہوں تجھ سے تو پھر |
مجھ کو یوں ہی کیوں منایا جا رہا ہے |
شاعری میں تھی تخیل کی کمی سو |
یار کو جبراً گنوایا جا رہا ہے |
وقت ایسا آئے گا سوچا نہیں تھا |
ہاتھ سے کھانا کھلایا جا رہا ہے |
سوچتا ہوں اس میں اپنا عکس ڈالوں |
ریت پہ جو دل بنایا جا رہا ہے |
جو بچا کر رکھا تھا خود سے ابھی تک |
وہ خزانہ اب لٹایا جا رہا ہے |
پہلے اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا |
آج کل عیابؔ پایا جا رہا ہے |
معلومات