مریضِ ہجر سنیں، پاس پاس ہو جائیں
اُداس شام ہے،سارے اُداس ہو جائیں
یہ مسئلہ ہے، اُداسی اُداس ہوتی ہے
فقیر لوگ اگر خوش لِباس ہو جائیں
ابھی گلے ملو ہم سے، کسے خبر ہے کہ کل
ہم اپنے آپ سے ہی نا شَناس ہو جائیں
خیالِ یار ہمیں تُو معاف کر دینا
کبھی کبھار جو ہم بَدحَواس ہو جائیں
وہ لمحہ بھر ہی سہی، بس ہمیں میّسر ہو
پھر اُس کے بعد بھلے ہم اُداس ہو جائیں
میں اُس مقام پہ پہنچا ہوں عشق میں الطاف
نصیحتیں بھی جہاں اِلْتِماس ہو جائیں

11