ہم اُنہیں صاحبِ گفتار نہیں کہہ سکتے، |
جو ترے حسن پہ اشعار نہیں کہہ سکتے۔ |
آپ دشوار کو آسان بھلے کہتے رہیں، |
آپ آسان کو دشوار نہیں کہہ سکتے۔ |
نا تو سر پھوڑا نہ ہی دشتِ الم میں بھٹکے، |
اِن کو بلکل بھی عزادار نہیں کہہ سکتے۔ |
عشق کا گیت کسی دشت میں جا کر گانا، |
ایسی باتیں سرِ بازار نہیں کہہ سکتے۔ |
وہ بھلے اپنی کہانی میں رہا دیر تلک، |
ہم اُسے مرکزی کردار نہیں کہہ سکتے۔ |
نہ تو آنکھوں میں وہ سوزِش نہ فسردہ چہرہ، |
ہم اِسے ہجر کا بیمار نہیں کہہ سکتے۔ |
جانے کیا سوچ کے یے بات کہی تھی اُس نے، |
"دوست کہہ سکتے ہو پر یار نہیں کہہ سکتے"۔ |
جھوٹ کہتے ہیں کئی لوگ یہاں پر لیکن، |
وہ تری طرح لگاتار نہیں کہہ سکتے۔ |
عمر گزری ہے میاں آئنہ خانوں میں،سو ہم |
عکسِ دیوار کو دیوار نہیں کہہ سکتے۔ |
شعر کہتے ہوئے اک بات کھلی ہے مجھ پر، |
ایک ہی بات کو دوبار نہیں کہہ سکتے۔ |
اُس نے جس پیار سے "عیّاب نہیں" بولا ہے، |
ایسے انکار کو انکار نہیں کہہ سکتے۔ |
معلومات