اُس کی سانسوں نے غضب شور مچاۓ رکھا، |
خود بھلے سو گیا پر فون لگاۓ رکھا۔ |
جب کہ ہر یاد مٹا دی تھی،نہ جانے کیوں پھر، |
ایک تصویر کو بٹوے میں چِھپاۓ رکھا ۔ |
ویسے انساں سے مخاطب بھی نہیں ہوتا میں ، |
حضرتِ دل نے جسے سر پہ بِٹھاۓ رکھا۔ |
جانتا تھا تجھے پانا نہیں ممکن پھر بھی ، |
عمر بھر دل نے تماشا سا لگاۓ رکھا۔ |
پہلے پٹکا زمیں پر اور بہاۓ آنسو ، |
پھر اُسی شان سے تحفوں کو سجاۓ رکھا۔ |
معلومات