Circle Image

اسامہ گلزار | Usama Gulzar

@UsamaGulzar

Usama Gulzar Poetry | اسامہ گلزار کی شاعری

جلتا ہے صبح و شام دیا اس دلان میں
آخر مقیم کون ہے دل کے مکان میں
سردار ہوں کبھی تو سرِ دار ہوں کبھی
کتنے ہی پیچ و خَم ہیں مری داستان میں
بزدل دلوں کی فوج مقابل کھڑی ہے اور
نکلا ہوں صرف حوصلہ لے کر کمان میں

0
13
یہ تمھاری راہوں کے دل جلے
نہ سمجھتے کچھ ہیں نہ سوچتے
کبھی مسکرائیں گے درد میں
کبھی راحتوں میں بھی رو لیے
یہ بڑے عجیب چراغ ہیں
نہ جلے ہوئے نہ بجھے ہوئے

0
18
اک وقت ہوا بتلاتے ہوئے ہم جان نچھاور کرتے ہیں
دل کھول کے بھی دکھلایا ہے ہم ایک تمی پر مرتے ہیں
اک تیری خاطر ہم ہیں جو طوفانوں سے بھی لڑتے ہیں
اور ہم ہی ہیں جو تیری آنکھ کے اک آنسو سے ڈرتے ہیں
تم تک نہ ابھی کیوں پہنچی ہیں جو آہیں دن بھر بھرتے ہیں
تم جان کی قیمت کب سمجھو اور جان کا کھونا کیا جانو

0
33
یوں سنبھالوں میں کہ ماتھے پہ شکن آ نہ سکے
تیرے خوابوں میں ذرا سی بھی تھکن آ نہ سکے
میں کہ دنیا کے ہر اک دکھ سے بچاؤں تجھ کو
یعنی صیاد کوئی سمتِ چمن آ نہ سکے
چاہتا تھا کہ ترے نام پہ اک نظم کہوں
چند لفظوں میں ترے روح و بدن آ نہ سکے

37
کوئی تو دیکھے مِری آنکھ میں اترے غم کو
کوئی ہمدرد مِرے درد کو بانٹے آ کر
ہم سفر کوئی مِرے ساتھ چلے چار قدم
پاؤں سے کوئی نکالے مِرے کانٹے آ کر

0
34
اس قدر بے بسی کی کبھی انتہا نہ ہو
یعنی کسی کا یار کسی سے جدا نہ ہو
روزِ جزا کے خوف سے جا کر ڈرا اسے
جس نے فراقِ یار کا صدمہ سہا نہ ہو
اک دردِ عشق ہے کہ نہیں چھوڑتا کبھی
ورنہ کوئی مرض ہے کہ جس کی دوا نہ ہو

0
41
اگرچہ رنج و الم سے نمٹ نہیں سکتے
بکھر تو سکتے ہیں رستے سے ہٹ نہیں سکتے
اذیتوں سے ڈریں بھی تو کیا کِیا جائے؟
کہ راہِ عشق سے واپس پلٹ نہیں سکتے
محبتوں کے دیے کو جلائے رکھتے ہیں
اندھیری راہوں میں راہی بھٹک نہیں سکتے

0
56
ایک ہی خاک سے اٹھے ہوئے دو جسم جنھیں
ایک دن ایک ہی مٹی میں سما جانا تھا
ایک ہی راہِ اذیت کے مسافر تھے جنھیں
اپنا دن رات محبت میں لٹا جانا تھا
اس کی بستی سے بہت دور بسیرا تھا مِرا
دونوں شہروں میں کئی دن کا سفر پڑتا تھا

0
74
ٹوٹ کر خاک میں ملتے ہوئے تارے دیکھے
میرے انجام کے غم ناک نظارے دیکھے
میرے رسمی سے تبسم پہ بھروسہ نہ کرے
رات جاگی ہوئی آنکھوں کے اشارے دیکھے
جس کو شکوہ ہے محبت میں منافع نہ ہوا
آئے اور آ کے کبھی میرے خسارے دیکھے

0
62
وہ جو ہر وقت مسکراتی ہے
دل میں کیا کیا الم چھپاتی ہے
ہم کو استاد بولنے والی
آج جینا ہمیں سکھاتی ہے
اس کے جانے کے بعد بھی اکثر
اس کی خوشبو ہوا سے آتی ہے

0
66
کتنے رنج و الم سے گزارے گئے
جن کے سینے میں بارود اتارے گئے
نام جن کے فلک سے پکارے گئے
علم کے راستوں میں جو مارے گئے
☆ ☆ ☆
اپنے والد کے واحد سہارے تھے وہ

0
90
فاروق بن کے کفر کو لرزاں کرے کوئی
اس امتِ رسول کو یکجاں کرے کوئی
اس دن تو اُس بیچارے کو کھانا نصیب ہو
پسرِ غریبِ شہر کو شاداں کرے کوئی
کوئی تو عیدِ قرباں کے حق کو ادا کرے
دل سے تمام نفرتیں قرباں کرے کوئی

0
46
حاکمِ شہر نے اعلان کیا ہے، سن لو!
ہر کھرا شخص یہاں ٹوک دیا جائے گا
جھوٹ لّکھو گے تو آزاد رہو گے لیکن
سچ کے لکھنے پہ قلم روک دیا جائے گا

41
ہم کسی کام سے جب اس کے نگر جائیں گے
چند اک روز بہانے سے ٹھہر جائیں گے
گزرے لمحوں کی طرح تم بھی چلے جاؤ گے
اپنے خوابوں کی طرح ہم بھی بکھر جائیں گے
ہم تجھے دیکھنے کو حد ادب سمجھیں گے
پھر ترے عشق میں ہر حد سے گزر جائیں گے

103
دل سے نکلے ہیں کہ منزل کی خبر کچھ بھی نہیں
تیری یادوں کے سوا رختِ سفر کچھ بھی نہیں
آج اک سال ہوا عشق میں جلتے ہم کو
اور ان بارہ مہینوں کا ثمر کچھ بھی نہیں
پوری بستی میں مرے عشق کی بدنامی ہے
کتنا معصوم ہے تو، تجھ کو خبر کچھ بھی نہیں

0
87
لوگ تہوار یہ خوشیوں سے منائیں گے مگر
میری قسمت تو بہاری نہیں ہونے والی
اب کے پھر گاؤں میں آیا نہیں چندا میرا
اب کے پھر عید ہماری نہیں ہونے والی

0
63
یاد کرو جب تنہائی میں ہاتھ ہمارا تھاما تھا
یاد کرو جب اپنے دل میں الفت کا ہنگامہ تھا
یاد کرو جب میں نے اپنے دل کی بات بتائی تھی
یاد کرو جب میں نے اپنی پہلی نظم سنائی تھی
یاد کرو جب تم سے ملنے شہر تمھارے آیا تھا
یاد کرو جب دروازے پر ہلکا سا شرمایا تھا

0
54
ترا دل کیوں سمجھتا ہے کہ دنیا جاودانی ہے
تماشہ کچھ دنوں کا ہے یہ سب کچھ اک کہانی ہے
مرے بھائی سمجھ جاؤ! یہ دنیا کھیل فانی ہے
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے
خدا سے کیوں نہیں ڈرتا، زمیں پر کیوں اکڑتا ہے
کوئی کچھ کر نہیں سکتا، خدا جب بھی پکڑتا ہے

0
43
ترے جانے پہ حیرت کیوں کروں میں
کہ یہ تو اک ضروری فیصلہ تھا
ملے تھے ہم یوں ہی اک حادثے میں
بچھڑنا تو شعوری فیصلہ تھا

0
50
ہم ہی پہ کہاں عشق کے الزام ہیں سارے
شاعر یہاں جتنے بھی ہیں بدنام ہیں سارے
میں ہی تو نہیں عشق میں دیوانہ و پاگل
جس جس نے کیا عشق وہ ناکام ہیں سارے
تم جس کو سمجھتے ہو کہ ہے لال سیاہی
وہ خون سے لکھے ہوئے پیغام ہیں سارے

0
74
انسان کو انساں کے برابر نہیں کہنا
کہتے ہیں ستم گر کو ستم گر نہیں کہنا
رنجش میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
یاری میں تو کافر بھی کافر نہیں کہنا
ہم لوگ تو ظالم کو برا منھ پہ کہیں گے
یہ کام تمھارا ہے کہ منھ پر نہیں کرنا

0
53
ایک غلطی بہت بڑی کر لی
اک مسافر سے دل لگی کر لی
اپنے یاروں سے توڑ کر رشتے
ایک دشمن سے دوستی کر لی
غم سخن بن کے آنکھ سے ٹپکا
ہم نے اشکوں سے شاعری کر لی

0
123
بھلایا ہے زمانے کو تمھاری یاد میں ہم نے
فقط تجھ کو بسایا ہے دلِ برباد میں ہم نے
خدا سے تجھ کو مانگا ہے تہجد کی دعاؤں میں
فقط تیری طلب کی ہے ہر اک فریاد میں ہم نے
تری منگنی کا سنتے ہی کلیجہ منھ کو آیا تھا
مگر کچھ پھول بھیجے ہیں مبارک باد میں ہم نے

0
86
مِرے مالک مِرا دَامن گُناہوں سے جُدا کر دے
تُو اپنی رحمتوں سے مجھ کو بھی حَق آشنا کر دے
میں احکامِ الہیٰ پر گُزاروں زندگی اپنی
مِری خَواہِشْ ہے مجھ کو بھی غُلامِ مصطفیٰ کر دے
خدا کا خُوف ہو اور ساتھ میں امیدِ رحمت بھی
مِرے نادان دل کو بھی یہ دو چیزیں عطا کر دے

245
شیطان اگر پیچھے ہے ہر ایک خطا کے
ابلیس نے کیوں سجدہ نہ آدم کو کیا تھا
انسان کے جیسے ہی تکبر تھا اسے بھی
اک نفسِ امارہ تھا جو شیطاں میں چھپا تھا

73
اپنا بھی نہیں ہوش اسے کام کے وقت
روٹی جو لے جانی ہے اسے شام کے وقت
دن بھر کی تھکن سے جو ہوا چور تو پھر
فٹ پاتھ پہ سوتا ہے وہ آرام کے وقت

32
مجھ کو الجھن سی ہوئی تھی اس اندھیری رات میں
ایک جھگڑا ہو گیا تھا عقل اور جذبات میں
عزت و ذلت کی مجھ کو فکر بھی رہتی تو کیا
مجھ کو اپنا بھی نہیں تھا ہوش ان لمحات میں
مانتا ہوں میں کہ وہ سب جھوٹ کہتا ہے مگر
ایک لذت سی تو ہے اس شخص کی ہر بات میں

68
ہم تو یہ ظلم کر نہیں سکتے
کاٹ اپنے شجر نہیں سکتے
تہمتوں کا ہے خوف اتنا کہ ہم
اس گلی سے گزر نہیں سکتے
اس کی آنکھوں میں ڈوبنے والے
عمر ساری ابھر نہیں سکتے

66
چلو دردِ دل کا بھی حَل ڈھونڈتے ہیں
کوئی اس کا نعم البدل ڈھونڈتے ہیں
انھیں کوئی ان کا گریباں دکھائے
یہ جو لوگ مجھ میں خَلل ڈھونڈتے ہیں
یہ دِکھتا نہیں ان کو قَلّاش ہوں میں
وہ کیوں میرے دل میں محل ڈھونڈتے ہیں

101
میں نے سوچا بھی نہ تھا ایسی سزا دے گا مجھے
ایک دن اپنی نگاہوں سے گرا دے گا مجھے
آج بھی جاگتا ہے رات کو یادوں میں مری
جس نے بولا تھا کہ لمحوں میں بھلا دے گا مجھے
جنگ میں لڑنے اگر جاؤں گا اس سے میں کبھی
اپنی آنکھوں سے ہی وہ شخص ہرا دے گا مجھے

74
اُسے مجھ پہ اب وہ بھروسہ کہاں ہے
کہ ہر بات پر جھوٹ کا ہی گماں ہے
سنا ہے کہ وہ چھوڑ کر جا رہا ہے
جَبھی آنکھ سے ایک دریا رواں ہے
مجھے میرے دو چار ساتھی بہت ہیں
اگرچہ ترے ساتھ سارا جہاں ہے

179
اپنی آنکھوں سے حسیں موتی بہانے آ گئے
بے وفاؤں کے نگر میں دل لگانے آ گئے
نت نئی ہے وجہ کوئی، نت نئی مجبوریاں
اس کو بھی اب دور رہنے کے بہانے آ گئے
اس کو آتا ہے اگرچہ دل دکھانے کا ہنر
مجھ کو بھی اپنے سبھی رشتے نبھانے آ گئے

65
بن سنور کے اگر گئے ہوتے
اس کے دل میں اتر گئے ہوتے
ایسے جینے سے لاکھ بہتر تھا
اس کے ہاتھوں میں مر گئے ہوتے
پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے
ہم جو اس کے نگر گئے ہوتے

0
118
اپنے ہاتھوں سے مِرے اشک ہٹانے والے
اب کہاں ملتے ہیں روٹھے کو منانے والے
اب مجھے نیند نہیں آتی ستاروں کی طرح
اب نہیں ساتھ مِرے مجھ کو سلانے والے
اس نے پوچھا ہے تعارف جو ہمارا تو کہو
ہم ہیں مسکان سے اشکوں کو چھپانے والے

92
کبھی تو مِرا یوں تو تھا بھی نہیں
مگر مجھ سے اتنا جدا بھی نہیں
مری عقل کہتی ہے اب بھول جا
مگر دل اسے بھولتا بھی نہیں
محبت اسے مل گئی ہے نئی
سو اب وہ مجھے دیکھتا بھی نہیں

81
ابھی تک مرے ساتھ یادیں ہیں اس کی
ابھی تک اسے میں نے کھویا نہیں ہے
ابھی اس کے ہاتھوں پہ مہندی ہے میری
ابھی اس نے ہاتھوں کو دھویا نہیں ہے

49
اس شہر میں ہمارے، کوئی راز دار ہوں
گنتی میں چاہے کم ہوں مگر غم گسار ہوں
ہم کو نہیں پسند کوئی بھی ترے سوا
تجھ سے حسین چاہے یہاں بے شمار ہوں
اک بے وفا ہمارے نگر میں ہے آگیا
عاشق مزاج لوگ سبھی ہوشیار ہوں

0
67
بہت دور دنیا سے پردہ نشیں ہوں
میں مدفون مٹی کے نیچے کہیں ہوں
میں دنیا کے رنگوں میں کھویا ہوا تھا
مگر اب اندھیرے مکاں کا مکیں ہوں
سمجھ میں نہ آئی جہاں کی حقیقت
مرا وہم تھا میں بہت ہی ذہیں ہوں

120
لاکھوں ماؤں کے بیٹوں کا خون بہایا جاتا ہے
پھر جا کر یہ پیارا پاکستان بنایا جاتا ہے
پاکستان کی خاطر اپنا سارا مال لٹایا تھا
لیکن اب تو سال بہ سال یہ دیس لٹایا جاتا ہے
لالچ میں کرسی کے جنرل بھاگے بھاگے آتے ہیں
منصب کے چکر میں ایسا شور مچایا جاتا ہے

48
ہر کسی سے اپنے غم کو میں چھپاتا ہوں مگر
اپنے دل کا حال میں تجھ کو سناتا ہوں مگر
جانتا ہوں میں کہ وہ اس کے ذرا قابل نہیں
اس پہ کر کے میں یقیں سب کچھ بتاتا ہوں مگر
دشمنوں کی دشمنی سے ڈر نہیں لگتا مجھے
دوستوں کی دوستی سے خوف کھاتا ہوں مگر

81
عید خوشیاں بانٹنے پھر، اے مسلماں! آگئی
تیرے دل میں تازہ کرنے پھر سے ایماں آگئی
مفلسوں کے گھر میں بھی ہوگا خوشی کا اب سماں
غم زدہ چہروں کو کرنے پھر سے شاداں آگئی
جانور کی بھی یہ قربانی ضروری ہے مگر
نفرتیں قرباں کرو سب عیدِ قرباں آگئی

63
آؤ تمہیں سناؤں میں اک بابا جی کی بات
ظلم کیے تھے جس کے اپنے خوں نے اس کے ساتھ
جس اولاد کے واسطے اس نے جھیلے تھے صدمات
ایک کیے تھے جن کے واسطے اس نے دن اور رات
جب بابا جی پر آئے تھے بڑھاپے کے لمحات
بھول گئے بچے بھی اپنے والد کے مقامات

126
عطا کر سمجھ مجھ کو قرآن کی
محمد پیارے کے فرمان کی
کفییت توں ایسی دے ایمان کی
چلے چال کوئی نہ شیطان کی
توں حالت بدل دلِ نادان کی
حیا مجھ کو دے دے تو عثمان کی

57
کوئی کیسے چھوڑ کے جائے گا
جب ساتھ کوئی آباد نہیں
وہاں کون کسی کو بھولے گا
جہاں کوئی کسی کو یاد نہیں

92
یہاں روز تماشہ ہوتا ہے
پر حاکم چین سے سوتا ہے
یہاں عزت لوٹی جاتی ہے
پر شرم نہ ان کو آتی ہے
ہیں پٹیاں ان کی آنکھوں پر
اور سامنے ان کے اندھیرے ہیں

89
وہ گھر سے جو اپنے نکلنے لگے ہیں
تو حالات اپنے بدلنے لگے ہیں
سو اب ان کا ہر روز دیدار ہوگا
کہ دن اب ہمارے بھی ڈھلنے لگے ہیں
ہوئی دل لگی جس کے دل کو کسی سے
کبھی پھر نہ وہ دل سنبھلنے لگے ہیں

156
آنکھوں میں اسے اپنی بسایا بھی نہیں ہے
اپنا ہے مگر کوئی پرایا بھی نہیں ہے
کیوں تہمتیں سب لوگ لگانے بھی لگے ہیں
میں نے تو اسے پاس بٹھایا بھی نہیں ہے
اس شخص کے جانے کا مجھے خوف بہت ہے
جس شخص کو میں نے ابھی پایا بھی نہیں ہے

144
گلی سے پھر گزر گیا ہے بے وفا
نہ میرے گھر مگر گیا ہے بے وفا
کبھی کھڑا تھا تھک کے جن کی چھاؤں میں
وہ کاٹ سب شجر گیا ہے بے وفا
وفا کا عہد اس نے بھی کیا تھا پر
وہ عہد سے مکر گیا ہے بے وفا

253
کبھی ہم نہ دل سے لگائے گئے
ہمیشہ نظر سے گرائے گئے
یہ شکوہ بجا ہے کہ ناراض تھے
مگر ہم نہ تجھ سے منائے گئے
ہوا تھا ہمارا بھی عہدِ وفا
یہ وعدے مگر کب نبھائے گئے

195
سمجھ بھی رہے ہیں اشارے ہمارے
سمجھتے نہیں پھر بھی پیارے ہمارے
اگر وہ جنم دن پہ میرے نہ آیا
تو کس کام کے یہ غبارے ہمارے
میسر تمہیں ہیں بہت لوگ لیکن
فقط ایک تم تھے سہارے ہمارے

87