Circle Image

اسامہ گلزار | Usama Gulzar

@UsamaGulzar

Usama Gulzar Poetry | اسامہ گلزار کی شاعری

جو تم سے بچھڑے تو یادِ ماضی تمھارا نعم البدل بنے گی
کہ اک اداسی اٹھے گی دل میں جو ہر اداسی کا حل بنے گی
میں شہ جہاں تو نہیں ہوں ممتاز لیکن اتنا بتا رہا ہوں
کہ تیری آمد سے میری اٹیا بھی ایک دلکش محل بنے گی
یہ زندگی جو تڑپ رہی ہے غموں کے کیچڑ میں آج میری
ذرا سا موسم بدل گیا تو مجھے یقیں ہے کنول بنے گی

0
4
کوئی تو دیکھے مِری آنکھ میں اترے غم کو
کوئی ہمدرد مِرے درد کو بانٹے آ کر
ہم سفر کوئی مِرے ساتھ چلے چار قدم
پاؤں سے کوئی نکالے مِرے کانٹے آ کر

0
51
اگرچہ رنج و الم سے نمٹ نہیں سکتے
بکھر تو سکتے ہیں رستے سے ہٹ نہیں سکتے
اذیتوں سے ڈریں بھی تو کیا کِیا جائے؟
کہ راہِ عشق سے واپس پلٹ نہیں سکتے
محبتوں کے دیے کو جلائے رکھتے ہیں
اندھیری راہوں میں راہی بھٹک نہیں سکتے

0
72
ایک ہی خاک سے اٹھے ہوئے دو جسم جنھیں
ایک دن ایک ہی مٹی میں سما جانا تھا
ایک ہی راہِ اذیت کے مسافر تھے جنھیں
اپنا دن رات محبت میں لٹا جانا تھا
اس کی بستی سے بہت دور بسیرا تھا مِرا
دونوں شہروں میں کئی دن کا سفر پڑتا تھا

0
109
کتنے رنج و الم سے گزارے گئے
جن کے سینے میں بارود اتارے گئے
نام جن کے فلک سے پکارے گئے
علم کے راستوں میں جو مارے گئے
☆ ☆ ☆
اپنے والد کے واحد سہارے تھے وہ

0
131
فاروق بن کے کفر کو لرزاں کرے کوئی
اس امتِ رسول کو یکجاں کرے کوئی
اس دن تو اُس بیچارے کو کھانا نصیب ہو
پسرِ غریبِ شہر کو شاداں کرے کوئی
کوئی تو عیدِ قرباں کے حق کو ادا کرے
دل سے تمام نفرتیں قرباں کرے کوئی

0
57
حاکمِ شہر نے اعلان کیا ہے، سن لو!
ہر کھرا شخص یہاں ٹوک دیا جائے گا
جھوٹ لّکھو گے تو آزاد رہو گے لیکن
سچ کے لکھنے پہ قلم روک دیا جائے گا

50
ہم کسی کام سے جب اس کے نگر جائیں گے
چند اک روز بہانے سے ٹھہر جائیں گے
گزرے لمحوں کی طرح تم بھی چلے جاؤ گے
اپنے خوابوں کی طرح ہم بھی بکھر جائیں گے
ہم تجھے دیکھنے کو حد ادب سمجھیں گے
پھر ترے عشق میں ہر حد سے گزر جائیں گے

113
لوگ تہوار یہ خوشیوں سے منائیں گے مگر
میری قسمت تو بہاری نہیں ہونے والی
اب کے پھر گاؤں میں آیا نہیں چندا میرا
اب کے پھر عید ہماری نہیں ہونے والی

0
69
انسان کو انساں کے برابر نہیں کہنا
کہتے ہیں ستم گر کو ستم گر نہیں کہنا
رنجش میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
یاری میں تو کافر بھی کافر نہیں کہنا
ہم لوگ تو ظالم کو برا منھ پہ کہیں گے
یہ کام تمھارا ہے کہ منھ پر نہیں کرنا

0
65
ایک غلطی بہت بڑی کر لی
اک مسافر سے دل لگی کر لی
اپنے یاروں سے توڑ کر رشتے
ایک دشمن سے دوستی کر لی
غم سخن بن کے آنکھ سے ٹپکا
ہم نے اشکوں سے شاعری کر لی

0
139
مِرے مالک مِرا دَامن گُناہوں سے جُدا کر دے
تُو اپنی رحمتوں سے مجھ کو بھی حَق آشنا کر دے
میں احکامِ الہیٰ پر گُزاروں زندگی اپنی
مِری خَواہِشْ ہے مجھ کو بھی غُلامِ مصطفیٰ کر دے
خدا کا خُوف ہو اور ساتھ میں امیدِ رحمت بھی
مِرے نادان دل کو بھی یہ دو چیزیں عطا کر دے

339
اپنا بھی نہیں ہوش اسے کام کے وقت
روٹی جو لے جانی ہے اسے شام کے وقت
دن بھر کی تھکن سے جو ہوا چور تو پھر
فٹ پاتھ پہ سوتا ہے وہ آرام کے وقت

38
مجھ کو الجھن سی ہوئی تھی اس اندھیری رات میں
ایک جھگڑا ہو گیا تھا عقل اور جذبات میں
عزت و ذلت کی مجھ کو فکر بھی رہتی تو کیا
مجھ کو اپنا بھی نہیں تھا ہوش ان لمحات میں
مانتا ہوں میں کہ وہ سب جھوٹ کہتا ہے مگر
ایک لذت سی تو ہے اس شخص کی ہر بات میں

81
ہم تو یہ ظلم کر نہیں سکتے
کاٹ اپنے شجر نہیں سکتے
تہمتوں کا ہے خوف اتنا کہ ہم
اس گلی سے گزر نہیں سکتے
اس کی آنکھوں میں ڈوبنے والے
عمر ساری ابھر نہیں سکتے

76
بہت دور دنیا سے پردہ نشیں ہوں
میں مدفون مٹی کے نیچے کہیں ہوں
میں دنیا کے رنگوں میں کھویا ہوا تھا
مگر اب اندھیرے مکاں کا مکیں ہوں
سمجھ میں نہ آئی جہاں کی حقیقت
مرا وہم تھا میں بہت ہی ذہیں ہوں

145
لاکھوں ماؤں کے بیٹوں کا خون بہایا جاتا ہے
پھر جا کر یہ پیارا پاکستان بنایا جاتا ہے
پاکستان کی خاطر اپنا سارا مال لٹایا تھا
لیکن اب تو سال بہ سال یہ دیس لٹایا جاتا ہے
لالچ میں کرسی کے جنرل بھاگے بھاگے آتے ہیں
منصب کے چکر میں ایسا شور مچایا جاتا ہے

52
ہر کسی سے اپنے غم کو میں چھپاتا ہوں مگر
اپنے دل کا حال میں تجھ کو سناتا ہوں مگر
جانتا ہوں میں کہ وہ اس کے ذرا قابل نہیں
اس پہ کر کے میں یقیں سب کچھ بتاتا ہوں مگر
دشمنوں کی دشمنی سے ڈر نہیں لگتا مجھے
دوستوں کی دوستی سے خوف کھاتا ہوں مگر

104
عید خوشیاں بانٹنے پھر، اے مسلماں! آگئی
تیرے دل میں تازہ کرنے پھر سے ایماں آگئی
مفلسوں کے گھر میں بھی ہوگا خوشی کا اب سماں
غم زدہ چہروں کو کرنے پھر سے شاداں آگئی
جانور کی بھی یہ قربانی ضروری ہے مگر
نفرتیں قرباں کرو سب عیدِ قرباں آگئی

74
آؤ تمہیں سناؤں میں اک بابا جی کی بات
ظلم کیے تھے جس کے اپنے خوں نے اس کے ساتھ
جس اولاد کے واسطے اس نے جھیلے تھے صدمات
ایک کیے تھے جن کے واسطے اس نے دن اور رات
جب بابا جی پر آئے تھے بڑھاپے کے لمحات
بھول گئے بچے بھی اپنے والد کے مقامات

147
عطا کر سمجھ مجھ کو قرآن کی
محمد پیارے کے فرمان کی
کفییت توں ایسی دے ایمان کی
چلے چال کوئی نہ شیطان کی
توں حالت بدل دلِ نادان کی
حیا مجھ کو دے دے تو عثمان کی

63
کوئی کیسے چھوڑ کے جائے گا
جب ساتھ کوئی آباد نہیں
وہاں کون کسی کو بھولے گا
جہاں کوئی کسی کو یاد نہیں

105
یہاں روز تماشہ ہوتا ہے
پر حاکم چین سے سوتا ہے
یہاں عزت لوٹی جاتی ہے
پر شرم نہ ان کو آتی ہے
ہیں پٹیاں ان کی آنکھوں پر
اور سامنے ان کے اندھیرے ہیں

118
وہ گھر سے جو اپنے نکلنے لگے ہیں
تو حالات اپنے بدلنے لگے ہیں
سو اب ان کا ہر روز دیدار ہوگا
کہ دن اب ہمارے بھی ڈھلنے لگے ہیں
ہوئی دل لگی جس کے دل کو کسی سے
کبھی پھر نہ وہ دل سنبھلنے لگے ہیں

174
آنکھوں میں اسے اپنی بسایا بھی نہیں ہے
اپنا ہے مگر کوئی پرایا بھی نہیں ہے
کیوں تہمتیں سب لوگ لگانے بھی لگے ہیں
میں نے تو اسے پاس بٹھایا بھی نہیں ہے
اس شخص کے جانے کا مجھے خوف بہت ہے
جس شخص کو میں نے ابھی پایا بھی نہیں ہے

158
گلی سے پھر گزر گیا ہے بے وفا
نہ میرے گھر مگر گیا ہے بے وفا
کبھی کھڑا تھا تھک کے جن کی چھاؤں میں
وہ کاٹ سب شجر گیا ہے بے وفا
وفا کا عہد اس نے بھی کیا تھا پر
وہ عہد سے مکر گیا ہے بے وفا

273
کبھی ہم نہ دل سے لگائے گئے
ہمیشہ نظر سے گرائے گئے
یہ شکوہ بجا ہے کہ ناراض تھے
مگر ہم نہ تجھ سے منائے گئے
ہوا تھا ہمارا بھی عہدِ وفا
یہ وعدے مگر کب نبھائے گئے

223