گلی سے پھر گزر گیا ہے بے وفا
نہ میرے گھر مگر گیا ہے بے وفا
کبھی کھڑا تھا تھک کے جن کی چھاؤں میں
وہ کاٹ سب شجر گیا ہے بے وفا
وفا کا عہد اس نے بھی کیا تھا پر
وہ عہد سے مکر گیا ہے بے وفا
خدا کرے کہ عمر ساری خوش رہے
مرے لئے تو مر گیا ہے بے وفا
اسامہؔ اس کو بے وفا نہ بول اب
وفا کہیں تو کر گیا ہے بے وفا

253