| وہ گھر سے جو اپنے نکلنے لگے ہیں |
| تو حالات اپنے بدلنے لگے ہیں |
| سو اب ان کا ہر روز دیدار ہوگا |
| کہ دن اب ہمارے بھی ڈھلنے لگے ہیں |
| ہوئی دل لگی جس کے دل کو کسی سے |
| کبھی پھر نہ وہ دل سنبھلنے لگے ہیں |
| کبھی پھول جھڑتے تھے باتوں سے جن کی |
| وہ اب زہر منھ سے اگلنے لگے ہیں |
| اسامہ کو اس قدر خوش دیکھ کر تو |
| جو یار اس کے پیارے تھے جلنے لگے ہیں |
معلومات