وہ گھر سے جو اپنے نکلنے لگے ہیں
تو حالات اپنے بدلنے لگے ہیں
سو اب ان کا ہر روز دیدار ہوگا
کہ دن اب ہمارے بھی ڈھلنے لگے ہیں
ہوئی دل لگی جس کے دل کو کسی سے
کبھی پھر نہ وہ دل سنبھلنے لگے ہیں
کبھی پھول جھڑتے تھے باتوں سے جن کی
وہ اب زہر منھ سے اگلنے لگے ہیں
اسامہ کو اس قدر خوش دیکھ کر تو
جو یار اس کے پیارے تھے جلنے لگے ہیں

156