لاکھوں ماؤں کے بیٹوں کا خون بہایا جاتا ہے
پھر جا کر یہ پیارا پاکستان بنایا جاتا ہے
پاکستان کی خاطر اپنا سارا مال لٹایا تھا
لیکن اب تو سال بہ سال یہ دیس لٹایا جاتا ہے
لالچ میں کرسی کے جنرل بھاگے بھاگے آتے ہیں
منصب کے چکر میں ایسا شور مچایا جاتا ہے
دو حصوں میں کاٹ دیا پھر اس کو رہنے والوں نے
یوں اقبال کو قبر میں اپنی دکھ پہنچایا جاتا ہے
بھولے بھالے بچوں پر بندوقیں تانی جاتی ہیں
مکتب میں جا پڑھنا بھی اک جرم بتایا جاتا ہے
اہلِ سیاست نا جانے کیا جادو ٹونا کرتے ہیں
ملک ترقی کرتا ہے اور قرضہ بڑھتا جاتا ہے
قبضہ اس کی شہ رگ پر ظالم نے کیا ہے مدت سے
اور یاں مگر اس ظالم کو شادی پہ بلایا جاتا ہے
حاکم میرے دیس کا ہاتھ میں لے کشکول نکلتا ہے
چندے کے پیسوں پر سارا ملک چلایا جاتا ہے
کوٹا سکہ چلتا ہے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
مال خوشی سے غربا کا اس ملک میں کھایا جاتا ہے
دودھ میں پانی شاید ہی کوئی نیک انسان ملاتا ہو
پانی کے اندر تھوڑا سا دودھ ملایا جاتا ہے
اپنی اپنی مرضی سے ہی عید منائی جاتی ہے
چاند نہ خود نکلے گر تو بھی چاند چڑھایا جاتا ہے
ملک میں ننھے بچوں کی بھی عزت لوٹی جاتی ہے
روز نئے اک چہرے پر تیزاب گرایا جاتا ہے
عورت بھی سڑکوں پر اب تو بینر لے کر آتی ہے
پردے کا بھی اس دھرتی پہ مزاق بنایا جاتا ہے
ہاتھ میں اپنی ڈگری لے کر مارے مارے پھرتے ہیں
ساری عمر جوانوں کو یوں ہی تڑپایا جاتا ہے
مغرب کی تہذیب سے سب کو اتنی زیادہ الفت ہے
یاں بچپن سے ممی ڈیڈی کا لفظ رٹایا جاتا ہے
سال گزر جو جاتا ہے تو آتا ہے اک دن ایسا
جشنِ آزادی پھر جس دن، خوب منایا جاتا ہے

48