ہم کسی کام سے جب اس کے نگر جائیں گے
چند اک روز بہانے سے ٹھہر جائیں گے
گزرے لمحوں کی طرح تم بھی چلے جاؤ گے
اپنے خوابوں کی طرح ہم بھی بکھر جائیں گے
ہم تجھے دیکھنے کو حد ادب سمجھیں گے
پھر ترے عشق میں ہر حد سے گزر جائیں گے
تجھ کو چھونے کے لئے ہاتھ بڑھائیں گے مگر
عشق کے دعوئے تقدیس سے ڈر جائیں گے
اتنی ہمت ہی نہیں پھر سے سنبھالیں خود کو
ہجر کی رات سے گزرے تو گزر جائیں گے
ہم نے دیکھا ہے انھیں اور کسی پر مرتے
وہ جو کہتے تھے تری یاد میں مر جائیں گے
تیر کر آگ کے دریا میں یہاں آئے تھے
تو نے اب دل سے نکالا تو کدھر جائیں گے
دکھ تو یہ ہے کہ مجھے اپنوں نے خنجر مارا
زخم کا کیا ہے! یہ بھرتے ہیں،یہ بھر جائیں گے
ہم نے سوچا تھا کہ اتریں گے اسامہ دل میں
کیا خبر تھی کہ نگاہوں سے اتر جائیں گے

103