| ہم کسی کام سے جب اس کے نگر جائیں گے |
| چند اک روز بہانے سے ٹھہر جائیں گے |
| گزرے لمحوں کی طرح تم بھی چلے جاؤ گے |
| اپنے خوابوں کی طرح ہم بھی بکھر جائیں گے |
| ہم تجھے دیکھنے کو حد ادب سمجھیں گے |
| پھر ترے عشق میں ہر حد سے گزر جائیں گے |
| تجھ کو چھونے کے لئے ہاتھ بڑھائیں گے مگر |
| عشق کے دعوئے تقدیس سے ڈر جائیں گے |
| اتنی ہمت ہی نہیں پھر سے سنبھالیں خود کو |
| ہجر کی رات سے گزرے تو گزر جائیں گے |
| ہم نے دیکھا ہے انھیں اور کسی پر مرتے |
| وہ جو کہتے تھے تری یاد میں مر جائیں گے |
| تیر کر آگ کے دریا میں یہاں آئے تھے |
| تو نے اب دل سے نکالا تو کدھر جائیں گے |
| دکھ تو یہ ہے کہ مجھے اپنوں نے خنجر مارا |
| زخم کا کیا ہے! یہ بھرتے ہیں،یہ بھر جائیں گے |
| ہم نے سوچا تھا کہ اتریں گے اسامہ دل میں |
| کیا خبر تھی کہ نگاہوں سے اتر جائیں گے |
معلومات