آنکھوں میں اسے اپنی بسایا بھی نہیں ہے
اپنا ہے مگر کوئی پرایا بھی نہیں ہے
کیوں تہمتیں سب لوگ لگانے بھی لگے ہیں
میں نے تو اسے پاس بٹھایا بھی نہیں ہے
اس شخص کے جانے کا مجھے خوف بہت ہے
جس شخص کو میں نے ابھی پایا بھی نہیں ہے
دل میں یہ تمنا ہے کہ آ جاؤں ترے پاس
آنے کے لئے پاس کرایہ بھی نہیں ہے
جیون میں مرے اتنی ہے تنہائی اسامہ
اب تو میرے ساتھ میں سایہ بھی نہیں ہے

144