بہت دور دنیا سے پردہ نشیں ہوں
میں مدفون مٹی کے نیچے کہیں ہوں
میں دنیا کے رنگوں میں کھویا ہوا تھا
مگر اب اندھیرے مکاں کا مکیں ہوں
سمجھ میں نہ آئی جہاں کی حقیقت
مرا وہم تھا میں بہت ہی ذہیں ہوں
زمیں سے ہیں نکلے مرے سب خزانے
مگر تب کہ جب میں ہی زیرِ زمیں ہوں
جبیں کر رہی ہے یہ شکوہ خدا سے
میں سجدوں کی ترسی ہوئی اک جبیں ہوں

145