| ایک ہی خاک سے اٹھے ہوئے دو جسم جنھیں |
| ایک دن ایک ہی مٹی میں سما جانا تھا |
| ایک ہی راہِ اذیت کے مسافر تھے جنھیں |
| اپنا دن رات محبت میں لٹا جانا تھا |
| اس کی بستی سے بہت دور بسیرا تھا مِرا |
| دونوں شہروں میں کئی دن کا سفر پڑتا تھا |
| اس کی بستی تھی وہاں سندھ کی سرحد کے قریب |
| وسطی پنجاب میں جا میرا نگر پڑتا تھا |
| پر کہاں فاصلے تقدیر مٹا پائے ہیں |
| کب کوئی وقت کی تلوار سے بچ پایا ہے |
| کیسے ممکن تھا کہ ٹل جاتا اذیت کا سفر |
| کیا کوئی عشق کی یلغار سے بچ پایا ہے |
| یہ ملاقات بہت پہلے سے لکھ رکھی تھی |
| اس کو لایا گیا ہجرت کا بہانہ کر کے |
| جذبہِ عشق اٹھایا گیا سینے میں مِرے |
| مجھ کو پاگل کیا آنکھوں کا دِوانَہ کر کے |
| رشتہ ہم دونوں کا آغاز میں ایسا تو نہ تھا |
| گرچہ اک رسمی ملاقات بھی ہو جاتی تھی |
| چلتے پھرتے میں اسے دیکھ لیا کرتا تھا |
| آنکھوں آنکھوں میں کبھی بات بھی ہو جاتی تھی |
| اس کی آنکھوں میں ہمیشہ سے چمک تھی لیکن |
| وہ چمک میری ضرورت تو نہیں ہوتی تھی |
| اس تبسم میں مِرے غم کا مداوا تو نہ تھا |
| وہ مجھے باعثِ راحت تو نہیں ہوتی تھی |
| ہاں مگر راہِ اذیت تو مقدر تھی مِرا |
| بے خودی میں پھر اسی راہ پہ چلنا تھا مجھے |
| ہاتھ میں لکھے مقدر کو بدلتا کیسے |
| آتشِ عشق میں اک روز تو جلنا تھا مجھے |
| عطرِ جذبات میں گوندھی ہوئی مٹی تھی مِری |
| اک نہ اک روز تو اس آنکھ کو نم ہونا تھا |
| ایک ہی خاک سے تخلیق ہوئے تھے دونوں |
| "مَیں" و" تُو" بھول کے اک روز تو "ہم "ہونا تھا |
| اے مِرے یار تِرا عشق اذیت ہی سہی |
| مجھ کو اپنا کے مِرا درد مسلسل کر دو! |
| میری مٹی میں ذرا خاک ملاؤ اپنی |
| "میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو!" |
معلومات