| یہاں روز تماشہ ہوتا ہے |
| پر حاکم چین سے سوتا ہے |
| یہاں عزت لوٹی جاتی ہے |
| پر شرم نہ ان کو آتی ہے |
| ہیں پٹیاں ان کی آنکھوں پر |
| اور سامنے ان کے اندھیرے ہیں |
| یہ جو حاکم تیرے میرے ہیں |
| یہ سارے چور لٹیرے ہیں |
| یہ قوم کے پیسے کھاتے ہیں |
| اور اپنے فلیٹ بناتے ہیں |
| بولیں تبدیلی آئی ہے |
| لیکن یاں فقط مہنگائی ہے |
| مرتے ہیں بھوک سے لوگ یہاں |
| کھانے میں ان کے بٹیرے ہیں |
| یہ جو حاکم تیرے میرے ہیں |
| یہ سارے چور لٹیرے ہیں |
| سکھ کوئی نہ بندہ لیتا ہے |
| حاکم بھی چندہ لیتا ہے |
| یاں بولنے پر پابندی ہے |
| لوگوں کی قسمت مندی ہے |
| یاں شام ہمیشہ رہتی ہے |
| بادل یہ بہت ہی گھنیرے ہیں |
| یہ جو حاکم تیرے میرے ہیں |
| یہ سارے چور لٹیرے ہیں |
| خود کو تو خدا یہ سمجھتے ہیں |
| ہر شے سے جدا یہ سمجھتے ہیں |
| بڑے اونچے ان کے مدارج ہیں |
| لندن میں ان کے معالج ہیں |
| ہے سارے ملک میں شام مگر |
| حاکم کے ہاں تو سویرے ہیں |
| یہ جو حاکم تیرے میرے ہیں |
| یہ سارے چور لٹیرے ہیں |
| کچھ کارڈ کھیلتے مذہب کا |
| کتنا لالچ ہے منصب کا |
| ورثے میں ملی سیاست ہے |
| کرسی یہ ان کی وراثت ہے |
| خوش کوئی نہ شخص یہاں پر ہے |
| یہاں غم کے ایسے گھیرے ہیں |
| یہ جو حاکم تیرے میرے ہیں |
| یہ سارے چور لٹیرے ہیں |
| انہیں اپنے پاپ چھپانے ہیں |
| انہیں اپنے باپ بچانے ہیں |
| یاں لوگ بچارے مرتے ہیں |
| یہ اپنی جیبیں بھرتے ہیں |
| فٹ پاتھوں پر سوئیں غربا |
| اور ان کے محل اور ڈیرے ہیں |
| یہ جو حاکم تیرے میرے ہیں |
| یہ سارے چور لٹیرے ہیں |
معلومات