Circle Image

محمد معین اختر

@MMA566

چھوٹی بحر*
لوفرانہ روِش
کافرانہ روِش
ہم سے بیگانگی
ظالمانہ روِش
ان کا یوں دیکھنا

93
یادوں کے اس عذاب سے نکلوں تو مر نہ جاؤں
ایسا مزہ ہے دشت میں اب میں تو گھر نہ جاؤں
ہجر و وصال برسے تو جل تھل یہاں بھی ہو
کچھ خیر کی نگاہ ہو تو میں بھی بھر نہ جاؤں
میرے عزیز یا مجھے اک سمت ڈال دیں
یا مجھ کو ہی بتا دیں کہ میں ہی کدھر نہ جاؤں

0
135
حسین راتیں اجاڑ لمحوں کی تابناکی میں جل رہی ہیں
کسی کی آنکھیں کہ خواب گاہوں کی اِس بے خوابی میں جل رہی ہیں
تمہاری الفت میں وہ بیچارا اسیرِ زنداں رہے گا کب تک
کہ اُس پیارے کی آرزوئیں تری سفاکی میں جل رہی ہیں
کیا ہی منظر تھا وہ کہ جس میں تُو نے دیکھا یوں مجھے پلٹ کر
کہ اب بھی آنکھیں ترے تخیل کی بے حجابی میں جل رہی ہیں

2
154
عُمر رستے میں کٹے ایسے، کہ رکنا نہ پڑے
زندگی ملتی رہے یار، کہ مرنا نہ پڑے!!
پڑھ کے کچھ پھونک دے ایسا ،کہ سبھی خیر رہے
وحشتیں ہوں کبھی درکار، تو کہنا نہ پڑے!!
یہ سہولت تو رہے ساتھ ترے، گر میں رہوں
تخت سب نام لگیں ایسے، کہ لڑنا نہ پڑے!!

0
131
"یاد"
آج عرصہ ہوا دکھ نے ایسا لیا
جیسے ٹوٹے دلوں میں کہیں
نیچے اور اتنا نیچے کہیں
پانیوں میں کسی یاد کا اک پتھر
جو گرے

0
116
"غلطی"
قافلے گزرنے میں
خواب نگری بننے میں
کوئی غلطی کر دی ہے
منزلیں تو مل جاتیں
ہم نے پرسمجھنے میں ، بات سننے میں شاید

0
95
جہان میرا
جو خاک و خوں ہے
اسی ترنم کا یہ فسوں ہے
کہ جس ترنم
نے مار ڈالا
ہے نسلوں تک کو

0
92
ہلکی لو پر ترا غم تھا کہ جلایا میں نے
آتشِ برگ کو سینے سے لگایا میں نے
دیکھتا رہ گیا حیرت سے وہ چاروں جانب
ایسے چکر میں نجومی کو گھمایا میں نے
جب تری طرف سے قاصد جو نہیں لوٹا تو
شور کے زور سے ہنگامہ اٹھایا میں نے

0
115
جو دن ڈھل جاۓ تاروں کو نکلنے کی اجازت ہو
یہ کیا ہر بات پر یونہی کہ جانے کی اجازت ہو
قبیلے سے کسی کو درد سہنے کی اجازت ہو
کہ جنگل میں سہی پر زندہ رہنے کی اجازت ہو
یہ دفتر عشق ہے سرکار سو کچھ ہیں اصولِ دل
یہاں اک بار جو گے پھر نہ آنے کی اجازت ہو

0
204
رستہ بھٹک رہا ہوں منزل بھی پا رہا ہوں
کچھ تو خبر ہو مجھ کو کس لے میں جا رہا ہوں
مجھ کو بلاؤ ہر در و بام جانتا ہوں
اس راستے میں میں پیکانِ وفا رہا ہوں
کچھ یار کی عداوت کچھ بغضِ آستیں تھا
ورنہ تو اس زمیں پر مدت کھڑا رہا ہوں

0
163
زماں کی دوری مکاں کی دوری
ہو اس سے آگے کہاں کی دوری
تمہیں پکاریں تمہیں سنواریں
ختم نا ہو جب خزاں کی دوری
کیا کٹے گی وہ شب ہماری
کہ صدیوں میں ہو جہاں کی دوری

2
83
راستے میں منزلیں منزلوں کے راستے
کھوج میں ہوں آج کل دھڑکنوں کے راستے
اب تو کچھ نگاہ ہو، اپنا بھی ہے ایک دل
تیرے بن اداس ہیں خواہشوں کے راستے
کون ہے میاں یہاں جو ہو ہجر جھیلتا
سب کو پیار چاہیے سازشوں کے راستے

0
111
مرے چارہ گر مجھے چھوڑ کر تو کہاں گیا
تجھے واسطہ مجھے کر خبر تو کہاں گیا
میں لگا ہوا ہوں اسی سفر کہ تو جس سفر
مجھے چھوڑ کر کے یوں دربدر تو کہاں گیا
وہ نگاہ جو کہ کہیں نہیں مجھے اک نگاہ
ارے دیکھ جا مرے بے خبر تو کہاں گیا

2
140
تمام عمر کا حاصل یہ اک وفا
ملا بھی آن لٹا کر تو اک دغا
خرید تو رہے ہو تنگ گزرے گا
مِرا وجود جو اس گھر میں جا بجا
میں بھول جاتا مگر وہ وبا کے دن
کہ ہاتھ لگنے سے جو حشر تھا بپا

0
108
پھر سے جو حوصلہ جما رہا ہوں
حال کا زائچہ بنا رہا ہوں
روح ماضی میں کھو چکی ہے یار
جسم کو میں جی کر سکھا رہا ہوں
تم کو دعوت ہے دیکھنے آنا
میں جو جنگل میں گھر بنا رہا ہوں

2
123
تم کو کچھ یاد ہے، وہ ایک پیاری شب
دل کے رنگیں، خیالوں میں گزاری شب
سرخ آنکھیں، اُجالے انتظاری ہیں
رب کیوں ان ہجر والوں، پر اتاری شب
شور جب ہے، سنائی نا دیا مجھ کو
پھر میں اپنی ہی، آہوں سے نکھاری شب

2
122
تُو نے آہٹ سے جو پہچان لیا ورنہ تو
میں نے مر جانا تھا پر قول نہیں کرنا تھا
م-اختر

2
107
کسی کی آنکھوں کے بھرم کے لیے
زماں کے حادثوں سے گزرا ہوں
م-اختر

191
دِلِ مال و جاں جو گنوا دیا
اسے پوچھو کس نے دغا دیا
میں تھا کس جہاں کی تلاش میں
مجھے کیسی راہ لگا دیا
کہ جو سانپ نا کہیں مل سکے
تُو نے آستیں سے ڈسا دیا

2
132
چراغ کی لو میں ڈھل گیا ہوں
کہ اس پہ پورا میں کُھل گیا ہوں
عجیب جذبوں نے مار ڈالا
عجیب حدت میں جل گیا ہوں
تری جو آہٹ سنی تھی میں نے
تو پھر میں گھٹنوں کے بل گیا ہوں

4
231
اب اور عذاب ہی، نہیں آئیں گے
اس کے جو خواب ہی، نہیں آئیں گے
تیری نگاہ کو، جو نہیں بھایا
اب وہ گلاب ہی، نہیں آئیں گے
آنکھیں سوال پر، جو کبھی آ ئِیں
تجھ کو جواب ہی، نہیں آئیں گے

2
134
تیرے اُس عہد کو، اس طرح نبھا رکھا ہے
ہم نے سینے پہ جو، اک بوجھ اٹھا رکھا ہے
تُو کبھی بھول کے آ نکلے، جو میری جانب
تجھ کو مشکل نا پڑے، گیٹ ہٹا رکھا ہے
جب سے ناراض ہو کر، مجھ سے الگ بیٹھا ہے
خُود کی نظروں سے، میں نے خُود کو گرا رکھا ہے

0
97