ہلکی لو پر ترا غم تھا کہ جلایا میں نے
آتشِ برگ کو سینے سے لگایا میں نے
دیکھتا رہ گیا حیرت سے وہ چاروں جانب
ایسے چکر میں نجومی کو گھمایا میں نے
جب تری طرف سے قاصد جو نہیں لوٹا تو
شور کے زور سے ہنگامہ اٹھایا میں نے
آج اس رستے میں ہم ہیں نہ نشانِ منزل
کل تلک جو تری خاطر تھا بنایا میں نے
اب اسی پر ہی قناعت کریں میرے حاکم
میں اٹھا لایا ہوں جو بھی تھا اگایا میں نے
آپ کے پیٹ نہیں بھرتے مگر اک بیٹا
تیس راتیں تھا جسےبھوکا سلایا میں نے
پھر ہے سارے جہاں کا ہجر سزا میں کاٹا
چند پل تھا جو ترے دل کو لبھایا میں نے
م-اختر

0
115