"یاد"
آج عرصہ ہوا دکھ نے ایسا لیا
جیسے ٹوٹے دلوں میں کہیں
نیچے اور اتنا نیچے کہیں
پانیوں میں کسی یاد کا اک پتھر
جو گرے
نیند توڑے بہت
شور پیدا کرے
پھر میں اٹھ کر اسے
کھودنے لگ پڑوں
ذہن کے خانوں میں بکھری
آج بھی اس کی کی بورڈ پر
چلتی وہ انگلیاں
جیسے کوئی جواری جو اک دم بکھیرے تاش کی پتیاں
جس کی آہٹ سے ہر سو ہواؤں میں خوشبو گھلے
پھول کھلنے لگیں
اس کی عینک کا رنگیں کلر
جو سماں باندھے ماحول کو سات رنگی کرے
اس کی آنکھیں کہ دنیا ہے واری ہوئی
اک جہاں جس کی خواہش مگر
جانے لگتی تھی اندر سے ہاری ہوئ
اب تو عرصہ ہوا
اس کے ہاتھوں میں نوٹس بھی دکھتے نہیں
لیب میں آج بھی کمپیوٹر
اس کی راہ تک رہے
جاوا کی ہاف کوڈنگ ابھی
بھی ادھوری کھڑی
جانے کتنے پراجیکٹ ابھی تک پینڈنگ پڑے
ڈھونڈ لاۓ کوئی
ہم نوا! اب کہاں
اب کہاں اس کی جانے نظر
اب کہاں دل رُبا
اب تو بس یاد ہے
یاد ہے اب تو بس
م-اختر

0
105