تمام عمر کا حاصل یہ اک وفا
ملا بھی آن لٹا کر تو اک دغا
خرید تو رہے ہو تنگ گزرے گا
مِرا وجود جو اس گھر میں جا بجا
میں بھول جاتا مگر وہ وبا کے دن
کہ ہاتھ لگنے سے جو حشر تھا بپا
گِرا جو خاک پہ ہوں تو کیا برا
مجھے فخر تا دمِ سانس تک لڑا
ادائیگی میں یہی مسئلہ ہے بس
جو یار عشق میں ہوتی نہیں قضا
مرا وجود یوں ڈوبا تھا پانی میں
ابھی بھی غم میں ہے کشتی کا نا خدا
م-اختر

0
83