چراغ کی لو میں ڈھل گیا ہوں |
کہ اس پہ پورا میں کُھل گیا ہوں |
عجیب جذبوں نے مار ڈالا |
عجیب حدت میں جل گیا ہوں |
تری جو آہٹ سنی تھی میں نے |
تو پھر میں گھٹنوں کے بل گیا ہوں |
اسے سہارے کی تھی ضرورت |
تبھی میں اک در میں ڈھل گیا ہوں |
کبھی تو مل کر نہیں تھا بھرتا |
کبھی تو دیکھے بہل گیا ہوں |
م-اختر |
معلومات