حسین راتیں اجاڑ لمحوں کی تابناکی میں جل رہی ہیں
کسی کی آنکھیں کہ خواب گاہوں کی اِس بے خوابی میں جل رہی ہیں
تمہاری الفت میں وہ بیچارا اسیرِ زنداں رہے گا کب تک
کہ اُس پیارے کی آرزوئیں تری سفاکی میں جل رہی ہیں
کیا ہی منظر تھا وہ کہ جس میں تُو نے دیکھا یوں مجھے پلٹ کر
کہ اب بھی آنکھیں ترے تخیل کی بے حجابی میں جل رہی ہیں
مجھے تو غیرت کا یہ بھی کوئی پرانا مسئلہ سا لگ رہا ہے
جو اتنی نسلیں کسی محبت کی کامیابی میں جل رہی ہیں
افق سے نکلے گا ایسا سورج مٹا جو دے گا سبھی اندھیرے
ہماری صبحیں ازل سے لے کر کسی تاریکی میں جل رہی ہیں
نگاہِ مجنوں کہ عشقِ مرزا وہ ہیر رانجھے کی اک کہانی
سنو گے کب تک کہ آ کے دیکھو یوں جسدِ خاکی میں جل رہی ہیں
تمہاری ظلمت رہے گی جب تک معین لکھتا رہے گا غزلیں
کہ اُس کی شامیں تری لگائی ضربِ کاری میں جل رہی ہیں
م-اختر

2
154
واااہ بہترین تخیل

بہت شکریہ ?

0