جو دن ڈھل جاۓ تاروں کو نکلنے کی اجازت ہو
یہ کیا ہر بات پر یونہی کہ جانے کی اجازت ہو
قبیلے سے کسی کو درد سہنے کی اجازت ہو
کہ جنگل میں سہی پر زندہ رہنے کی اجازت ہو
یہ دفتر عشق ہے سرکار سو کچھ ہیں اصولِ دل
یہاں اک بار جو گے پھر نہ آنے کی اجازت ہو
لڑوں گا عمر کے اک حصہ تک لیکن اگر اس میں
میں جب تھک کر بکھر جاؤں تو رونے کی اجازت ہو
یہی ہوں گے جو پہلو کھیل کے لیکن مجھے حاصل
خفا ہو جب بھی مجھ سے وہ منانے کی اجازت ہو
م-اختر

0
204