جو دن ڈھل جاۓ تاروں کو نکلنے کی اجازت ہو |
یہ کیا ہر بات پر یونہی کہ جانے کی اجازت ہو |
قبیلے سے کسی کو درد سہنے کی اجازت ہو |
کہ جنگل میں سہی پر زندہ رہنے کی اجازت ہو |
یہ دفتر عشق ہے سرکار سو کچھ ہیں اصولِ دل |
یہاں اک بار جو گے پھر نہ آنے کی اجازت ہو |
لڑوں گا عمر کے اک حصہ تک لیکن اگر اس میں |
میں جب تھک کر بکھر جاؤں تو رونے کی اجازت ہو |
یہی ہوں گے جو پہلو کھیل کے لیکن مجھے حاصل |
خفا ہو جب بھی مجھ سے وہ منانے کی اجازت ہو |
م-اختر |
معلومات