جہان میرا
جو خاک و خوں ہے
اسی ترنم کا یہ فسوں ہے
کہ جس ترنم
نے مار ڈالا
ہے نسلوں تک کو
اجاڑ ڈالا
ہماری بے رِہ روی کو یارو
کسی کی شاموں
سحر کو یارو
عذابِ جاں میں دھکیل کر تم
یہاں پہ خوشیاں
منا رہے ہو
سبھی کا حق تھا
محبتوں پر
سبھی کے حق میں
بہار آتی
کبھی بھی در پر
جو دیپ جلتے
نہ پھر کسی کے
نصیب جلتے
ابھی بھی رُت ہے
پلٹ کے جاؤ
ابھی بھی رُت ہے
بہار دل میں
ابھی تو موسم میں تازگی ہے
ابھی تو شاخوں
پہ چار پتے
خزاں کو روکے کھڑے ہوئے ہیں
ابھی تو موسم
ہرے ہوۓ ہیں
زرا سی دیری جو کر گۓ تو
کسی کی آنکھوں کے
خواب سارے
اجڑتی پلکوں میں
مر گۓ تو
کسی کے دل کی جوان گلیاں
جو بند خانوں میں
ڈھل گئیں تو
تو کون اس کا
حساب دے گا
کبھی جو بیٹھو تو سوچنا پھر
محبتوں کے
حصار میں پھر
ہے کون کتنا
امر ہوا تو
زمین کس کو نگل گئ ہے
تو دیکھ لینا
یہی کہے گا
تمہارا دل ہی جواب دے گا
تمہارے ہاتھوں
اجڑ چکی ہے
وہ ایک لڑکی
جو مر چکی ہے
وہ ایک لڑکی جو مر چکی ہے
م-اختر

0
92