راستے میں منزلیں منزلوں کے راستے
کھوج میں ہوں آج کل دھڑکنوں کے راستے
اب تو کچھ نگاہ ہو، اپنا بھی ہے ایک دل
تیرے بن اداس ہیں خواہشوں کے راستے
کون ہے میاں یہاں جو ہو ہجر جھیلتا
سب کو پیار چاہیے سازشوں کے راستے
ہم تلاشتے رہے عمر لگ گئی مگر
گھوم پھر کے آ ملے راستوں کے راستے
بھوک جب بگڑ گئی پھر معین چل پڑا
رہبروں سے ہو نکل رہزنوں کے راستے
م-اختر

0
111