Circle Image

Irshad Aatif

@9173421920

حسیں خوابوں کا گلدستہ دکھا کر
پڑوسن لے کے آیا ہوں بھگا کر
چلا لو کام انڈے سے ابھی تم
میں کل لاؤں گا مرغی بھی چرا کر
ہیں گھر میں گھسنے کے آداب بھی کچھ
چلے آتے ہو ہر دم منھ اٹھا کر

10
جان لیوا جب اس کی فرقت تھی
ترکِ الفت کی کیا ضرورت تھی
دیکھنے میں تو یار میت تھی
ہاں مگر دل میں اس کے حرکت تھی
سب دوانہ سمجھتے تھے مجھ کو
اس قدر آپ سے محبت تھی

21
تیرے جیسے کتنے آئے
دن میں تارے جن کو دکھائے
اس نے ہم کو پتھر مارے
ہم نے جس پر گل برسائے
ایسا چڑھا ہے پیار کا نشہ
ہوش و خرد کچھ کام نہ آئے

18
جس ماں نے مقدر ترا دن رات سنوارا
اس کو نہ اذیت کبھی تو دینا خدارا
دیدار میں جب جب بھی مری ماں کا کروں تو
لگتا ہے مجھے کر لیا جنت کا نظارہ
جس ماں کو رلاتا رہا دکھ دیتا رہا ہے
آئی جو مصیبت تو اسی ماں کو پکارا

18
کیا خوب حسیں تجھ کو قدرت نے بنایا ہے
سونے سی تری زلفیں اور چاندی سی کایا ہے
شرمیلی نگاہیں ہیں اے جانِ حیا تیری
ہر ایک ادا قاتل اے جانِ ادا تیری
مجھے ان ہی اداؤں نے دیوانہ بنایا ہے
اک تازہ کنول ہے تو شاعر کی غزل ہے تو

46
دور ایسا یہاں پہ آیا ہے
کل جو اپنا تھا اب پرایا ہے
میں نے اس کو جہاں سے پایا ہے
جانے کیا کیا وہیں گنوایا ہے
زندگی بھر نہ بھول پاؤں گا
سر پہ احسان کا جو سایہ ہے

77
روزہ داروں کے لئے آئی ہے عید
رب کے پیاروں کے لئے آئی ہے عید
عید گاہوں پر دکھے جو سال میں
ان نظا روں کے لئے آئی ہے عید
رات میں رمضاں کی جو آئے نظر
ان ستاروں کے لئے آئی ہے عید

55
دور اس کا بہت ہی گھر نکلا
اور رستہ بھی پر خطر نکلا
سوچا دل میں رہیں گے چین سے ہم
اس کا دل بھی مگر کھنڈر نکلا
خود بخود اٹھ گئی نظر سب کی
بن سنور کر وہ جب اِدھر نکلا

42
کیوں نہ آئے گی اب خوشی گھر میں
میری بیٹی جو آ گئی گھر میں
چمکا بیٹی سے گھر مرا یارو
اب نہ آئے گی تیرگی گھر میں
بیٹیاں جس کے گھر میں ہوتی ہیں
اور بڑھ جاتی ہے خوشی گھر میں

56
میرے لب پر اگر دعا ہی نہیں
یہ نہ سوچو مرا خدا ہی نہیں
جس سفینے پہ تم سوار ہوئے
اس سفینے کا نا خدا ہی نہیں
وہ شجر کیسے فیض پہنچائے
پاس جس کے کوئی رکا ہی نہیں

57
دیکھ کر دنیا کے منظر رو پڑے
مفلس و مسکیں قلندر رو پڑے
جب زمیں پر اصغر اکبر رو پڑے
تو فلک پر ماہ و اختر رو پڑے
اس جہاں کے لعل و گوہر رو پڑے
سارے انساں کے مقدر رو پڑے

2
119
وہ قریں ہو کے مجھ سے جدا بھی رہا
عشق میرے لئے مسئلہ بھی رہا
وہ ہمیشہ ہی مجھسے خفا بھی رہا
میرے حق میں مگر سوچتا بھی رہا
پیاس نظروں کی میری بجھی نہ کبھی
دور تک میں اسے دیکھتا بھی رہا

185
روشنی کا ادھر سفر کیوں ہے
تیرگی رات دن ادھر کیوں ہے
جب سلامت ہیں آرزو کے چمن
زندگی اتنی مختصر کیوں ہے
جس کا سایہ ملے نہ پھل کوئی
گھر کے آنگن میں وہ شجر کیوں ہے

121
دیکھ کر دنیا کے منظر رو پڑے
مفلس و مسکیں قلندر رو پڑے
جب زمیں پر اصغر اکبر رو پڑے
تو فلک پر چاند و اختر رو پڑے
اس جہاں کے لعل و گوہر رو پڑے
سارے انساں کے مقدر رو پڑے

85
مقابل ہی رہے اغیار میرے
کیا اپنوں نے پیچھے وار میرے
ہمیشہ جو رہے غمخوار میرے
دعاؤں کے ہیں وہ حقدار میرے
بڑھی جب جب بھی گھر تکرار میرے
تو آنگن میں اٹھی دیوار میرے

120