دور ایسا یہاں پہ آیا ہے
کل جو اپنا تھا اب پرایا ہے
میں نے اس کو جہاں سے پایا ہے
جانے کیا کیا وہیں گنوایا ہے
زندگی بھر نہ بھول پاؤں گا
سر پہ احسان کا جو سایہ ہے
جن چراغوں نے روشنی دی ہے
ہم نے ان کو یہاں بجھایا ہے
اس کی آنکھوں میں آگئے آنسو
حالِ دل جس کو بھی سنایا ہے
دنیا اب تک سمجھ نہیں پائی
اس نے انسان کیوں بنایا ہے
حوصلہ اور بڑھ گیا میرا
جب مجھے اس نے آز مایا ہے
جس کے سر پیر کا ٹھکانہ نہیں
شعر ایسا بھی گنگنا یا ہے
کھو دیا خود کا اعتبار اطفؔ
جب سے اپنوں سے دھوکہ کھایا ہے

0
65