روشنی کا ادھر سفر کیوں ہے
تیرگی رات دن ادھر کیوں ہے
جب سلامت ہیں آرزو کے چمن
زندگی اتنی مختصر کیوں ہے
جس کا سایہ ملے نہ پھل کوئی
گھر کے آنگن میں وہ شجر کیوں ہے
مشکلوں کا بچھا ہے جال یہاں
اتنی آسان رہ گزر کیوں ہے
جب بھروسہ کیا ہے اس پر تو
تیرے لب پر اگر مگر کیوں ہے
ڈور سانسوں کی ٹوٹتی جائے
موت ہم سب کی منتظر کیوں ہے
زندگی ہے اگر سفر عاطف
مشکلوں سے بھری ڈگر کیوں ہے

93