| دیکھ کر دنیا کے منظر رو پڑے |
| مفلس و مسکیں قلندر رو پڑے |
| جب زمیں پر اصغر اکبر رو پڑے |
| تو فلک پر چاند و اختر رو پڑے |
| اس جہاں کے لعل و گوہر رو پڑے |
| سارے انساں کے مقدر رو پڑے |
| دیکھ کر اپنے کناروں کو خموش |
| جھیل دریا اور سمندر رو پڑے |
| سامنے ادنی سی اک مخلوق کے |
| بے بسی پر اپنی رہبر رو پڑے |
| دنیا میں پھیلی وبا کے خوف سے |
| وقت کے سارے سکندر رو پڑے |
| درد کے جو نام سے واقف نہ تھے |
| دیکھ کر ہم کو وہ پتھر رو پڑے |
| ظلم کر کے ہنس رہے تھے کل تلک |
| آج وہ سجدوں میں گر کر رو پڑے |
| ہو گئیں ویران سڑ کیں اس طرح |
| میل کے عاطف بھی پتھر رو پڑے |
معلومات