وہ قریں ہو کے مجھ سے جدا بھی رہا
عشق میرے لئے مسئلہ بھی رہا
وہ ہمیشہ ہی مجھسے خفا بھی رہا
میرے حق میں مگر سوچتا بھی رہا
پیاس نظروں کی میری بجھی نہ کبھی
دور تک میں اسے دیکھتا بھی رہا
اک طرف اس کی الفت سے انکار ہے
اور اسی کے لئے سوچتا بھی رہا
ایک ٹک سب کے سب دیکھتے رہ گئے
منتظر اس کا تو راستہ بھی رہا
ایک پل بھی سکوں سے رہا نہ کبھی
اور عاطفؔ سے اس کو گلہ بھی رہا

177