وہ قریں ہو کے مجھ سے جدا بھی رہا |
عشق میرے لئے مسئلہ بھی رہا |
وہ ہمیشہ ہی مجھسے خفا بھی رہا |
میرے حق میں مگر سوچتا بھی رہا |
پیاس نظروں کی میری بجھی نہ کبھی |
دور تک میں اسے دیکھتا بھی رہا |
اک طرف اس کی الفت سے انکار ہے |
اور اسی کے لئے سوچتا بھی رہا |
ایک ٹک سب کے سب دیکھتے رہ گئے |
منتظر اس کا تو راستہ بھی رہا |
ایک پل بھی سکوں سے رہا نہ کبھی |
اور عاطفؔ سے اس کو گلہ بھی رہا |
معلومات