دیکھ کر دنیا کے منظر رو پڑے
مفلس و مسکیں قلندر رو پڑے
جب زمیں پر اصغر اکبر رو پڑے
تو فلک پر ماہ و اختر رو پڑے
اس جہاں کے لعل و گوہر رو پڑے
سارے انساں کے مقدر رو پڑے
دیکھ کر اپنے کناروں کو خموش
جھیل دریا اور سمندر رو پڑے
سامنے ادنی سی اک مخلوق کے
بے بسی پر اپنی رہبر رو پڑے
دنیا میں پھیلی وبا کے خوف سے
وقت کے سارے سکندر رو پڑے
درد کے جو نام سے واقف نہ تھے
دیکھ کر ہم کو وہ پتھر رو پڑے
ظلم کر کے ہنس رہے تھے کل تلک
آج وہ سجدوں میں گر کر رو پڑے
ہو گئیں ویران سڑ کیں اس طرح
میل کے عاطفؔ بھی پتھر رو پڑے

2
108
لاجواب نظم ہے ۔ مبارک قبول کیجے ۔
جب زمیں پر اصغر اکبر رو پڑے ؛ ؟؟؟ وضاحت ؟ اور مقطع بھی کیا کہتا ہے ؟؟

0
کاشف علی عباس صاحب بیحد ممنون و مشکور ہوں
جزاک اللہ خیرا

0