Circle Image

Zaheer Allahabadi

@15121472

Afkaar e Zaheer Allahabadi

دیار غیر میں یوں بر سر پیکار ہے زینب
ترے آگے ستم کا ہر ہنر بیکار ہے زینب
سنا ہے شام میں کچھ اس طرح بیدار ہے زینب
کہ اب سونا یزید نحس کا دشوار ہے زینب
زمینوں پر زمانوں پر زمانے کی ہر اک شئ پر
تری سرکار ہے زینب تری سرکار ہے زینب

0
5
پہچان ہے پھولوں کی تو خوشبو کی بدولت
اپنی بھی شناسائی ہے اردو کے بدولت
یہ میر یہ غالب تو ترقی کا سبب ہیں
اردو تو ملی ہے ہمیں خسرو کی بدولت
منسوب نہیں ہے کسی مسلک سے یہ ہرگز
ہے اردو ادب مسلم و ہندو کی بدولت

0
7
اے عاشقوں شرف ہے یہی اربعین کا
مٹتا ہے اس جگہ پہ ہی سرحد کا فاصلہ
جاپان و روس،ترکی و لبنان و لیبیا
ہر ملک بن کے آگیا عاشق حسینؑ کا
ہوتا ہے دور فرق سفید و سیاہ کا
بندہ ہے ہر بشر یہاں عالی پناہ کا

1
11
ہمارے عشق میں اپنی خوشی خراب نہ کر
اک انتظار میں یہ زندگی خراب نہ کر
ابھی دکھے ہیں سبھی درد اس کی آنکھوں میں
ورق پہ اتری یہ صورت ابھی خراب نہ کر
تجھے لکھا نہیں مالک نے میری قسمت میں
تو آ کے خواب میں عادت مری خراب نہ کر

0
4
بڑی صفائی سے باہر نکل ہی آتا ہے
وہ میرے جال سے اکثر نکل ہی آتا ہے
خود اپنے آپ کی اوقات دیکھنے کے لئے
مرا قدم سر چادر نکل ہی آتا ہے
وہ جس کی پشت پناہی پہ میڈیا ہو کھڑا
وہ کچھ بھی کرتا ہے بچ کر نکل ہی آتا ہے

0
5
تمہاری دید کی آخر لکھیں گے داستاں کب تک
رہیں گے منتظر یوں ہی بھلا دونوں جہاں کب تک
مرے دشتِ تمنا میں گلِ اُمِّید کھل اٹھیں
خبر مل جائے تھوڑی سی کہ پہنچوگے یہاں کب تک
تقاضائے محبت ہے کہ اب تو رو برو ہو جا
رکھوں اس عشق میں مولاؑ عریضہ درمیاں کب تک

0
5
ہمیں کبھی بھی جو ویزہ ملا کراچی سے
تو ساتھ لائیں گے کچھ تو نیا کراچی سے
کہیں پہ جون کی یادوں کی محملیں ہوں گی
ملے گا ولولہ بھی جوش کا کراچی سے
عجیب بات مخالف بھی تیری بستی کے
منگا رہے ہیں مسلسل دوا کراچی سے

0
4
قلب مجروح سر دست سجائے ہوئے ہم
بزم میں آئے ہیں سر اپنا اٹھائے ہوئے ہم
آج چہرے کی خوشی دیکھ کے خوش ہیں سارے
کون کہتا ہے کہ ہیں غم کے ستائے ہوئے ہم
رونقیں اس کو لگیں اور کہیں کی اچھی
منتظر بیٹھے تھے اس دل کو جلائے ہوئے ہم

0
5
خود کو عرفان میں ڈھالوں تو کہیں نعت کہوں
چادرِ حمد اُڑھا لوں تو کہیں نعت کہوں
بارشِ لطف و عنایات کا موسم ہے یہاں
معتبر لفظ اٹھا لوں تو کہیں نعت کہوں
تیرے محبوب کی مدحت میں بدن لرزاں ہے
اے خدا خود کو سنبھالوں تو کہیں نعت کہوں

0
5
کیوں اضطراب آج دل بے خبر میں ہے
شاید محبتوں کے کوئی اب سفر میں ہے
بدلاؤ کی ہمارے زمانے میں حد ہوئی
شیرینی ہے نمک میں ملاحت شکر میں ہے
واضح ہوا ہے آج کہ ان کے پسر ہو تم
جو حرکتیں تھیں باپ کی نور نظر میں ہے

0
1
11
آبلوں سے تری گلیوں میں اجالا نہ کریں
اب ترے شہر کو اپنا بھی تو دیوانہ کریں
تو مری پہنچ سے ہے دور مگر تیرے لئے
کیا غریبوں کو نہیں حق کہ تمنا نہ کریں
ہچکیوں نے مرے خوابوں میں خلل ڈالا ہے
ان سے کہہ دے کوئی میرے لئے سوچا نہ کریں

0
8
اس نئے دور کی الفت کا تقاضا یہ ہے
اب کہیں اور سے پتھر نہ منگایا جائے
عشق لیلی میں جو مجنوں کو پڑے ہیں پتھر
اک نیا تاج محل ان سے بنایا جائے

1
10
جس نے کل پردہ اٹھایا تھا کسی چہرے سے
پھر وہ بستی میں نظر ہی نہیں آیا چہرہ

0
3
کیوں اضطراب آج دل بے خبر میں ہے
شاید محبتوں کے کوئی اب سفر میں ہے
بدلاؤ کی ہمارے زمانے میں حد ہوئی
شیرینی ہے نمک میں ملاحت شکر میں ہے
واضح ہوا ہے آج کہ ان کے پسر ہو تم
جو حرکتیں تھیں باپ کی نور نظر میں ہے

1
13
ہو جو امکان تو کیا رات میں ہو سکتی ہے
دوستی ایک ملاقات میں ہو سکتی ہے
تو اگر بات نہیں کرتا نہ کر ، جانے دے
گفتگو تجھ سے خیالات میں ہو سکتی ہے
میں تو عاشق ہوں تبھی سنتا ہوں شکوے ورنہ
سینکڑوں بات تری بات میں ہو سکتی ہے

10
گزشتہ شب اسے دیکھا تھا خواب میں میں نے
بتا کے خوابِ پریشاں خوشی خراب نہ کر

3
بسمہ تعالی
خالق سے آج لطفِ رسالت مآب مانگ
یعنی کہ خاص صدقۂ عالی جناب مانگ
ان کی سرشت میں تو عطا ہی عطا ہے بس
جو مانگنا ہو مانگ لے اور بے حساب مانگ
ماتھے پہ کیوں شکن ہے جنابِ بتولؑ کے

11
بسمہ تعالی
خالق سے آج لطفِ رسالت مآب مانگ
یعنی کہ خاص صدقۂ عالی جناب مانگ
ان کی سرشت میں تو عطا ہی عطا ہے بس
جو مانگنا ہو مانگ لے اور بے حساب مانگ
ماتھے پہ کیوں شکن ہے جنابِ بتولؑ کے

17