تمہاری دید کی آخر لکھیں گے داستاں کب تک |
رہیں گے منتظر یوں ہی بھلا دونوں جہاں کب تک |
مرے دشتِ تمنا میں گلِ اُمِّید کھل اٹھیں |
خبر مل جائے تھوڑی سی کہ پہنچوگے یہاں کب تک |
تقاضائے محبت ہے کہ اب تو رو برو ہو جا |
رکھوں اس عشق میں مولاؑ عریضہ درمیاں کب تک |
عجب حسرت ہے، تفسیرِ سَلُونِی میں سمجھ جاؤں |
سنائی دے گا بولو تو علیؑ سا وہ بیاں کب تک |
ہم ایسے خاک کے ذرُّوں پہ لطفِ خاص فرمائیں |
مِہَر یہ دور سے ہوتی رہے گی مہرباں کب تک |
ضرورت ہے کہ بازارِ عدالت گرم ہو جائے |
کھلیں گی سب بنامِ عدل یہ فرضی دکاں کب تک |
مرورِ دھر سے پوچھا ہے اکثر یہ زلیخاؑ نے |
بتاؤ تو رہیں گے مہدؑئ دوراں جواں کب تک |
بنِ زہراؑ ندائے "یَا لَثَارَاتَل" اٹھاؤ اب |
بنِ مریمؑ کریں آخر یہ سیرِ آسماں کب تک |
سکونِ عالمِ امکاں ، مصلےٰ بھی بچھا دیجے |
مچلتا ہی رہے گا رات دن آبِ رواں کب تک |
یہ رازِ مرضیٔ وحدت اگر چاہو تو بتلا دو |
"رہوگے پردۂ غیبت میں اے مولاؑ نہاں کب تک" |
صدائے "قَد ظَھَر" آنے لگے اشعار سے بڑھ کر |
میَسَّر ہوگی میرے لفظوں کو آخر زباں کب تک |
معلومات