کیوں اضطراب آج دل بے خبر میں ہے |
شاید محبتوں کے کوئی اب سفر میں ہے |
بدلاؤ کی ہمارے زمانے میں حد ہوئی |
شیرینی ہے نمک میں ملاحت شکر میں ہے |
واضح ہوا ہے آج کہ ان کے پسر ہو تم |
جو حرکتیں تھیں باپ کی نور نظر میں ہے |
یہ سوچ کر نظر کسی لڑکی پہ ڈالئیے |
بیٹی کوئی اے یار تمہارے بھی گھر میں ہے |
مجھ سے ملائیے نہ مرے ہی رقیب کو |
ہم میں وہی ہے فرق کہ جو خیر و شر میں ہے |
ہجرت نہ تیرے دل سے کبھی ہو سکی مری |
باقی ہر ایک یاد بھی دیوار و در میں ہے |
دونوں کی سرخیوں کا سماں ایک ہی سا ہے |
"وہ غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے" |
معلومات