کیوں اضطراب آج دل بے خبر میں ہے
شاید محبتوں کے کوئی اب سفر میں ہے
بدلاؤ کی ہمارے زمانے میں حد ہوئی
شیرینی ہے نمک میں ملاحت شکر میں ہے
واضح ہوا ہے آج کہ ان کے پسر ہو تم
جو حرکتیں تھیں باپ کی نور نظر میں ہے
یہ سوچ کر نظر کسی لڑکی پہ ڈالئیے
بیٹی کوئی اے یار تمہارے بھی گھر میں ہے
مجھ سے ملائیے نہ مرے ہی رقیب کو
ہم میں وہی ہے فرق کہ جو خیر و شر میں ہے
ہجرت نہ تیرے دل سے کبھی ہو سکی مری
باقی ہر ایک یاد بھی دیوار و در میں ہے
دونوں کی سرخیوں کا سماں ایک ہی سا ہے
"وہ غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے"

1
10
واحد جمع پہ توجہ دیجیئے

جو حرکتیں تھیں باپ کی نور نظر میں ہے
حرکتیں جمع ہے یہ جملہ ہو گا "جو حرکتیں تھیں باپ کی نور نظر میں ہیں" جو آپ کی ردیف نہیں ہے

اسی طرح
سینکڑوں بات تری بات میں ہو سکتی ہے
سینکڑوں جمع ہے یہ جملہ ہوگا - سینکڑوں باتیں تری بات میں ہو سکتی ہیں

وغیرہ


0