ہمیں کبھی بھی جو ویزہ ملا کراچی سے
تو ساتھ لائیں گے کچھ تو نیا کراچی سے
کہیں پہ جون کی یادوں کی محملیں ہوں گی
ملے گا ولولہ بھی جوش کا کراچی سے
عجیب بات مخالف بھی تیری بستی کے
منگا رہے ہیں مسلسل دوا کراچی سے
یہ دل تو قابو سے باہر ہی ہو چلا تھا کہ جب
کسی نے آ کے کہا فون تھا کراچی سے
وطن میں اس کے جو تو نے مجھے بسایا ہے
ضرور آئی ہے تجھ تک دعا کراچی سے
سفر یہ ہجر کا تنہا تو کٹ نہیں سکتا
میں اس کو ساتھ میں لے آؤں گا کراچی سے
اس ایک بات کا خمیازہ کیسے پورا ہو
مجھے اکیلے ہی آنا پڑا کراچی سے
پلٹ کے جانا اسے پھر کبھی نصیب نہ ہو
کسی کی ایسی لگے بد دعا کراچی سے

0
1