دیار غیر میں یوں بر سر پیکار ہے زینب |
ترے آگے ستم کا ہر ہنر بیکار ہے زینب |
سنا ہے شام میں کچھ اس طرح بیدار ہے زینب |
کہ اب سونا یزید نحس کا دشوار ہے زینب |
زمینوں پر زمانوں پر زمانے کی ہر اک شئ پر |
تری سرکار ہے زینب تری سرکار ہے زینب |
ادھر تشہیر کی تیاریاں ہیں اور ادھر دیکھو |
کہ فتح شام و کوفہ کے لئے تیار ہے زینب |
طناب خیمۂ صبر و رضا ہل ہی نہیں سکتی |
ستم کی قوتیں اس پار ہیں اس پار ہے زینب |
غذائے سفرۂ ملعون پہ پھولا پھلا جو بھی |
ترے مد مقابل وہ بشر لاچار ہے زینب |
زبان اسکتوا نے منجمد ماحول کر ڈالا |
مزاج کن یکن کا بے مثل شہکار ہے زینب |
اسی خاطر تو توڑے جا رہے ہیں آئینہ خانے |
یزیدی شیش محلوں پر ترا جو وار ہے زینب |
ابھی بولی لگے گی کوڑیوں میں فتح ظالم کی |
کوئی دربار میں کہہ دے سر بازار ہے زینب |
وقار سلطنت کی لاش کے ٹکڑے نہیں ملتے |
فنون ضرب میں یارو عجب فنکار ہے زینب |
یہاں بھی فاصلہ ما بین بس قوسین پاؤ گے |
امامت سن رہی ہے اور تری گفتار ہے زینب |
عجب شور خموشی ہے زمانہ محو حیرت ہے |
خدا کی خلق پہ ایسے تری سرکار ہے زینب |
لصیق خاندان آل احمد کیا سمجھ پائیں |
کہ جو تاریخ میں بی بی ترا کردار ہے زینب |
ستم زعم ظفریابی میں ایسی نیند سویا ہے |
خبر اس کو نہیں ہو پائی کہ بیدار ہے زینب |
سکوت عابد بیمار سے خوش فہمی مت پالو |
امامت کی قیادت میں سر پیکار ہے زینب |
قلم تو بک چکے تھے پھر بھی لکھنا ہی پڑا ان کو |
"پس کرب و بلا شبیر کا انکار ہے زینب" |
ظہیؔر کج سخن کی دسترس میں ہے نہیں ہرگز |
وہ لفظیں لکھ دے جن کی اصل میں حقدار ہے زینب |
معلومات