کیوں اضطراب آج دل بے خبر میں ہے
شاید محبتوں کے کوئی اب سفر میں ہے
بدلاؤ کی ہمارے زمانے میں حد ہوئی
شیرینی ہے نمک میں ملاحت شکر میں ہے
واضح ہوا ہے آج کہ ان کے پسر ہو تم
جو حرکتیں تھیں باپ کی نور نظر میں ہے
یہ سوچ کر نظر کسی لڑکی پہ ڈالئیے
بیٹی کوئی اے یار تمہارے بھی گھر میں ہے
مجھ سے ملائیے نہ مرے ہی رقیب کو
ہم میں وہی ہے فرق کہ جو خیر و شر میں ہے
ہجرت نہ تیرے دل سے کبھی ہو سکی مری
باقی ہر ایک یاد بھی دیوار و در میں ہے
دونوں کی سرخیوں کا سماں ایک ہی سا ہے
"وہ غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے"

0
1
7
واہ کیا کہنے

کیوں اضطراب آج دلِ بے خبر میں ہے
شاید محبتوں کے کوئی اب سفر میں ہے

دو اشعار کے حوالے سے بنیادی بہتری کا مشورہ پیشِ خدمت ہے۔۔۔

بدلاؤ کی *یوں* ہمارے زمانے میں حد ہوئی
شیرینی ہے نمک میں ملاحت شکر میں ہے
واضح ہوا ہے آج کہ ان کے پسر ہو تم
*طرزِ عمل جو باپ کا* نورِ نظر میں ہے

باقی خوب است

اور

یہ سوچ کر نظر کسی لڑکی پہ ڈالئیے
بیٹی کوئی اے یار تمہارے بھی گھر میں ہے

پر تو سلام ہے آپ کو۔

0