پہچان ہے پھولوں کی تو خوشبو کی بدولت
اپنی بھی شناسائی ہے اردو کے بدولت
یہ میر یہ غالب تو ترقی کا سبب ہیں
اردو تو ملی ہے ہمیں خسرو کی بدولت
منسوب نہیں ہے کسی مسلک سے یہ ہرگز
ہے اردو ادب مسلم و ہندو کی بدولت
اک لفظ ہے جو "آپ" اسے دیجیئے ترویج
ہے جھگڑا ہی دنیا میں من و تو کی بدولت
محتاط بہت رہیئے پر آشوب جہاں میں
مٹ جاتی ہے ہر نیکی کسی سو کی بدولت
محفل نہ کرو ختم ابھی ٹھہرو خدارا
آیا ہوں نظر میں ترے پہلو کی بدولت
یہ آپ کی نسبت نے ہی عزت ہمیں دی ہے
ورنہ نہیں پوچھے کوئی خو بو کی بدولت
بھائی کو کہا جاتا ہے بھائی کا محافظ
شبیر کے بس قوت بازو کی بدولت

0
7