قلب مجروح سر دست سجائے ہوئے ہم
بزم میں آئے ہیں سر اپنا اٹھائے ہوئے ہم
آج چہرے کی خوشی دیکھ کے خوش ہیں سارے
کون کہتا ہے کہ ہیں غم کے ستائے ہوئے ہم
رونقیں اس کو لگیں اور کہیں کی اچھی
منتظر بیٹھے تھے اس دل کو جلائے ہوئے ہم
تھا کبھی آبلہ پائی کا بھی اعزاز ہمیں
اور اب تخت حکومت پہ بٹھائے ہوئ ہم
آج صحراؤں کی زینت میں گنے جاتے ہیں
جاہ و حشمت کو کہیں چھوڑ کے آئے ہوئے ہم
وقت لے کے جسے ملنے کے لئے آئے ہو
ہیں وہی آپ کی چوکھٹ سے بھگائے ہوئے ہم
یوں زمانے کو میسر ہیں با آسانی بھی
اور پھر آپ کے بھی ہاتھ نہ آئے ہم
کتنی آنکھوں سے کبھی صاف کئے تھے آنسو
اور اب اپنے لہو میں ہی نہائے ہوئے ہم

0
1